محسن احسان اردو کے ممتاز شاعر، ادیب اور ماہرِ تعلیم تھے، جنھوں نے زندگی کی 77 بہاریں دیکھیں اور 2010ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے دنیا سے ناتا توڑ لیا۔
محسن احسان کا تعلق پاکستان کے صوبہ سرحد (خیبر پختون خوا) سے تھا جہاں رہتے ہوئے انھوں نے اردو ادب کی آب یاری کی اور زبان و ادب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ وہ اسی زمین کی فارغ بخاری، رضا ہمدانی، خاطر غزنوی، شوکت واسطی اور احمد فراز جیسی قد آور شخصیات کے ہم عصروں میں سے ایک تھے۔
پشاور کے محسن احسان نے لندن میں اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔ انھیں سرطان کا مرض لاحق تھا۔
محسن احسان نے انگریزی ادب میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد پشاور کے اسلامیہ کالج سے استاد اور پھر بحیثیت سربراہِ شعبہ انگریزی وابستگی اختیار کی۔ تدریس کے ساتھ وہ علمی و ادبی سرگرمیاں بھی انجام دیتے رہے اور شاعری کا سفر جاری رکھا۔
ان کا اصل نام احسان الٰہی تھا۔ وہ 15 اکتوبر 1932ء کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے 35 سال تک تدریس کے شعبے میں خدمات انجام دیں۔
انھوں نے شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی۔ ان نظموں اور غزلوں کے مجموعے ناتمام، ناگزیر، ناشنیدہ، نارسیدہ اور سخن سخن مہتاب کے نام سے شایع ہوئے جب کہ نعتیہ شاعری کا مجموعہ اجمل و اکمل کے نام سے اشاعت پزیر ہوا تھا۔
محسن احسان نے قومی و ملّی نغمات بھی لکھے۔ ان کا یہ کلام مٹی کی مہکار کے نام سے منظر عام پر آیا۔
ادبِ اطفال کی بات کی جائے تو انھوں نے پھول پھول چہرے کے نام سے خوب صورت نظموں کا مجموعہ بچّوں کے لیے پیش کیا۔
ان کا ایک کارنامہ خوش حال خان خٹک اور رحمٰن بابا کی شاعری کو اردو کے قالب میں ڈھالنا ہے۔
حکومتِ پاکستان نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔
یہاں ہم محسن احسان کی ایک غزل باذوق کی نذر کررہے ہیں۔
میں ایک عمر کے بعد آج خود کو سمجھا ہوں
اگر رکوں تو کنارا، چلوں تو دریا ہوں
جو لب کشا ہوں تو ہنگامۂ بہار ہوں میں
اگر خموش رہوں تو سکوتِ صحرا ہوں
تجھے خبر بھی ہے کچھ اے مسرتوں کے نقیب
میں کب سے سایۂ دیوارِ غم میں بیٹھا ہوں
مری خودی میں نہاں ہے مرے خدا کا وجود
خدا کو بھول گیا جب سے خود کو سمجھا ہوں
میں اپنے پاؤں کا کانٹا، میں اپنے غم کا اسیر
مثالِ سنگِ گراں راستے میں بیٹھا ہوں
بلندیوں سے مری سمت دیکھنے والے
مرے قریب تو آ میں بھی ایک دنیا ہوں
اگر ہے مقتلِ جاناں کا رخ تو اے محسنؔ
ذرا ٹھہر کہ ترے ساتھ میں بھی چلتا ہوں