تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

نام وَر ڈراما نگار، صدا کار اور اداکار رفیع پیر کا یومِ وفات

پاکستان کے نام وَر ڈراما نگار، صدا کار اور اداکار رفیع پیر 11 اپریل 1974ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ انھوں نے تھیٹر، ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے اپنے فن اور صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں کے لیے خدمات انجام دیں۔

رفیع پیر نے 1900ء میں‌ متحدہ ہندوستان میں‌ آنکھ کھولی۔ رفیع پیرزادہ نے خالصتاً علمی و ادبی ماحول میں نشوونما پائی اور فنونِ لطیفہ میں اوائلِ عمری ہی میں دل چسپی لینے لگے تھے۔

رفیع پیر کی تعلیم کا سلسلہ گورنمنٹ کالج لاہور تک پہنچا تو اس وقت تحریکِ عدم تعاون، تحریکِ خلافت کا شور تھا اور جلیانوالہ باغ کا سانحہ پیش آیا تھا، جس نے انھیں کالج چھوڑ کر سیاست میں حصّہ لینے پر آمادہ کیا۔ ایک موقع پر جب ان کی گرفتاری کے وارنٹ نکلے تو اہلِ خانہ نے انھیں لندن بھجوا دیا، لیکن ان کے دل میں انگریزوں سے نفرت بھری ہوئی تھی اور انھوں نے وہاں سے جرمنی کا رخ کرلیا۔

جرمنی اس زمانے میں فن و ثقافت کا مرکز تھا جہاں رفیع پیر کو تھیٹر پر کھیل تماشے اور ناٹک دیکھنے کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ وہاں مختلف علمی اور ادبی رجحانات نے انھیں متاثر کیا اور یوں ہندوستان واپسی پر رفیع پیر نے جدید رجحانات کو یہاں‌ فنونِ لطیفہ اور ثقافت کے میدان میں آزمایا اور ’’انڈین اکیڈمی آف آرٹس‘‘ قائم کی، جس سے تربیت یافتہ فن کار سامنے آئے جو فلم اور تھیٹر کی دنیا میں نام وَر ہوئے۔ رفیع پیر نے آل انڈیا ریڈیو، لاہور اسٹیشن پر قسمت آزمائی، انھوں نے ریڈیو کے لیے درجنوں ڈرامے تحریر کیے۔ وہ ڈراما نگار بھی تھے اور صداکار اور اداکار بھی۔ لاہور اور دہلی ریڈیو اسٹیشنوں سے طویل عرصے تک وابستہ رہے اور نام و مقام بنایا۔

1946ء میں انھیں فلم نیچا نگر میں اہم کردار نبھانے کا موقع ملا۔ یہ وہ فلم تھی جسے فرانس کے مشہور فلمی میلے میں انعام بھی ملا تھا۔ رفیع پیر کا ریڈیو کے لیے لکھا گیا ڈراما ’’اکھیاں‘‘ بہت مشہور ہوا۔ اکھیاں ریڈیو سے نشر ہونے والا پہلا پنجابی تھا۔ جس کے بعد انھوں‌ نے پنجابی زبان میں مزید ڈرامے تحریر کیے۔ ان کا آخری ڈراما ٹیلی ویژن کے لیے لکھا گیا تھا۔

Comments

- Advertisement -