تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

رضیہ بٹ کا تذکرہ جنھوں نے اپنے ناولوں میں پاکستانی عورت کے فرائض و ذمہ داریوں کو خاص اہمیت دی

رضیہ بٹ کی رومانوی اور گھریلو موضوعات پر مبنی کہانیاں اس زمانے میں بہت مقبول ہوئیں جب تقریباً ہر گھر میں عورتیں بہت شوق سے ادبی جرائد، مختلف رسائل اور ڈائجسٹ پڑھا کرتی تھیں۔

مصنّفہ کی کہانیوں کا مرکزی کردار بھی یہی عورت اور اس کی گھریلو زندگی تھی جسے انھوں نے اپنے ناولوں کے رومانوی کرداروں کے ذریعے بڑی خوبی سے پیش کیا۔

رضیہ بٹ نے 1940ء کے عشرے میں لکھنا شروع کیا تھا۔ انھوں نے تقسیمِ ہند کے چشم دید واقعات کو بھی اپنے ناولوں میں شامل کیا ہے۔ ان کے ناولوں کی کُل تعداد 53 ہے۔

’بانو‘ وہ ناول تھا جو قیامِ‌ پاکستان کے بعد شایع ہوا اور اس نے مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ اس ناول کی ڈرامائی تشکیل کے بعد اسے ٹیلی ویژن پر بھی پیش کیا گیا۔

انھوں نے پاکستانی معاشرے میں عورت کے کردار کو بہت اہمیت دی۔ اس کی مثال ان کے ناول نائلہ، صاعقہ، انیلہ، شبو، بانو، ثمینہ، ناجیہ، سبین، رابی اور بینا ہیں جن کا مرکز عورت کا کردار ہے۔ 60 کی دہائی میں مغربی پاکستان کی پہلی رنگین فلم نائلہ پیش کی گئی جو انہی کے ناول پر مبنی تھی۔ اس فلم نے زبردست کام یابی سمیٹی اور رضیہ بٹ کے ناول انیلہ اور شبو پر بھی فلمیں بنائی گئیں۔ ٹیلی ویژن کے لیے بھی ان کے ناولوں کی ڈرامائی تشکیل کی گئی۔

پاکستان کی یہ مشہور ناول نگار اور کہانی نویس 89 برس کی عمر میں 4 اکتوبر 2012ء کو وفات پاگئی تھیں۔ آج ان کی برسی ہے۔

رضیہ بٹ کی ابتدائی زندگی کے اوراق الٹیں تو معلوم ہوگا کہ ان کا تعلق کشمیر کے ایک علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ وہ 1924ء کو راولپنڈی میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام رضیہ نیاز بٹ تھا۔ ان کا زیادہ تر بچپن پشاور میں گزارا۔ چوں کہ انھیں شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول میسر آیا تھا، تو مطالعے کا شوق بھی رہا جس نے انھیں بھی لکھنے لکھانے پر اکسایا۔ گھر کے ماحول اور مطالعے کے شوق نے انھیں تخلیقی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کا موقع دیا اور اسکول کے زمانے میں ہی انھوں نے اردو کے مضمون میں اپنے معیاری مضامین اور تحریروں کی وجہ سے اساتذہ کی توجہ حاصل کرلی۔

اساتذہ کی تعریفوں کے ساتھ ان کے والد کو بھی احساس ہوا کہ ان کی بیٹی زرخیز اور تخلیقی ذہن کی حامل ہے اور انھوں نے رضیہ بٹ کی بہت حوصلہ افزائی اور راہ نمائی۔ یوں ان کی اوّلین تحریر ایک ادبی جریدے تک پہنچی اور شائع ہوئی اور ان کا ادبی سفر شروع ہو گیا۔

1946ء میں رضیہ بٹ کا پہلا ناول ’’نائلہ‘‘ شائع ہوا۔ اسی سال ان کی شادی بھی ہوگئی، لیکن انھوں نے لکھنا ترک نہیں کیا۔ انھوں نے ناول نگاری کے علاوہ 350 سے زائد کہانیاں اور ریڈیو پلے بھی لکھے۔

رضیہ بٹ نے اپنے ناولوں میں عورت کے کردار اور اس کے فرائض و ذمہ داریوں کو خاص اہمیت دی اور ان سے متعلق موضوعات اور ایسے مسائل کو اجاگر کیا جن پر افادی مباحث اور تبصرے سامنے آئے۔ انھیں خواتین میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی ناول نگار کا درجہ حاصل ہے۔

Comments

- Advertisement -