آج اردو کے قادرُالکلام شاعر صبا اکبر آبادی کا یومِ وفات ہے۔ وہ 1991ء میں اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ انھوں نے ایک ناول بھی لکھا جب کہ فارسی ادب سے تراجم بھی ان کا ادبی کارنامہ ہیں۔
تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کے شہر کراچی میں سکونت اختیار کرنے والے صبا اکبر آبادی نے ایک برس تک محترمہ فاطمہ جناح کے پرائیوٹ سیکریٹری کی حیثیت سے بھی کام کیا۔
صبا اکبر آبادی نے 1920ء میں اپنا شعری سفر شروع کیا تھا اور اپنے عربی فارسی کے استاد اخضر اکبرآبادی کے شاگرد رہے۔ 1930ء میں محکمہ تعلیم میں بطور کلرک ملازم ہوئے۔ بعدازاں متعدد تجارتی اور کاروباری اداروں سے منسلک رہے اور پاکستان میں جناح کالج اور دوسرے تعلیمی اداروں سے منسلک رہے۔ انھوں نے غزل، رباعی، نظم، مرثیہ جیسی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی۔
صبا اکبر آبادی کا اصل نام خواجہ محمد امیر تھا۔ وہ 14 اگست 1908ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے 1928ء میں ادبی ماہ نامہ ’’آزاد‘‘ بھی جاری کیا تھا۔
صبا اکبر آبادی کے شعری مجموعوں میں اوراقِ گل، سخن ناشنیدہ، ذکر و فکر، چراغِ بہار، خوں ناب، حرزِ جاں، ثبات اور دستِ دعا شامل ہیں۔ مرثیہ نگاری بھی صبا اکبر آبادی کا ایک مستند حوالہ ہے اور ان کے لکھے ہوئے مرثیوں کے مجموعے سربکف، شہادت اور قرطاسِ الم شائع ہوئے۔
انھوں نے فارسی ادب سے عمر خیام، غالب، حافظ اور امیر خسرو کا کلام منتخب کر کے اردو میں منظوم ترجمہ کیا۔ صبا اکبر آبادی نے ایک ناول بھی لکھا جو ’’زندہ لاش‘‘ کے نام سے شایع ہوا۔
ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
یہ ہمیں ہیں کہ ترا درد چھپا کر دل میں
کام دنیا کے بدستور کیے جاتے ہیں
اس کو بھی ہم سے محبت ہو ضروری تو نہیں
عشق ہی عشق کی قیمت ہو ضروری تو نہیں
اپنے جلنے میں کسی کو نہیں کرتے ہیں شریک
رات ہو جائے تو ہم شمع بجھا دیتے ہیں
سونا تھا جتنا عہدِ جوانی میں سو لیے
اب دھوپ سر پہ آ گئی ہے آنکھ کھولیے