ہندوستان کے مغل شہنشاہ شاہ جہان کی اپنی محبوب ملکہ سے بے پناہ محبّت اور شہرہ آفاق عمارت تاج محل کی تعمیر جہاں اس دور کی ایک یادگار اور عجوبہ ہے، وہیں ترقی پسند شاعر ساحر لدھیانوی کی وہ نظم بھی پاک و ہند میں مشہور ہے، جس کے ہر شعر میں محبّت کی اس یادگار سے نفرت اور بیزاری جھلک رہی ہے۔
آج اسی ساحر لدھیانوی کی برسی ہے۔ اس مشہور شاعر کی نظمیں اثرانگیز اور دلوں میں اتر جانے والی ہیں۔ ان کے باغیانہ افکار نے ایک عہد کو متاثر کیا۔ ان کی شاعری میں احتجاج اور محبت کے رنگ بہم ہوتے نظر آتے ہیں، لیکن ان کا مجموعہ کلام ’’تلخیاں‘‘ دراصل ان کے جذبات اور احساسات کا وہ مجموعہ تھا جس میں دردمندی، محرومی، بیزاری، غصہ، نفرت، محبت، کیف و مستی، انا، ضد، شکوے شکایات سبھی کچھ تھا۔ وہ اپنے زمانے میں نوجوانوں میں مقبول اور ہر طبقے کے پسندیدہ شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں مزدوروں، کسانوں اور معاشرے کے کچلے ہوئے طبقوں سے ہمدردی کے جذبات ملتے ہیں، ان کی شاعری اپنے عشقیہ مزاج کے باوجود ایک گہرے سیاسی شعور کی آئینہ دار ہے۔
ساحر لدھیانوی 25 اکتوبر 1980ء کو بمبئی میں دل کا دورہ پڑنے سے وفات پاگئے تھے اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔
ہندوستان کی فلمی شاعری کے معیار کو بلند کرنے اور فلمی نغموں میں ادبی حسن پیدا کرنے کے حوالے سے بھی ان کی کوششیں ناقابل فراموش ہیں۔ انھیں بہترین گیت نگار کا فلم فیئر ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔
ساحر مشرقی پنجاب کے شہر لدھیانہ میں 8 مارچ 1921ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام عبدالحئی تھا۔ 1939ء میں انٹر کا امتحان پاس کیا۔ لیکن آگے نہ پڑھ سکے اور کالج سے نکال دیا گیا۔ یہی وہ دن تھے جب وہ اشتراکی نظریے سے متاثر ہوئے اور کمیونسٹ پارٹی کی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے۔ ناکام عشق کے احساس غم نے ان کی شاعری کو چمکا دیا اور ان کے لفظوں میں ایک نئی تاثیر ڈال دی۔
شاعری تو اسکول کے زمانے ہی میں شروع کردی تھی، لیکن بعد میں لاہور کی ادبی فضا اور صحبتوں نے ان کی ادبی شخصیت اور شاعری کو بھی چمکایا۔ وہ کئی ادبی پرچوں کے مدیر رہے اور فلم انڈسٹری کے لیے لازوال گیت تخلیق کیے۔ 1950ء میں ساحر نے بمبئی میں مستقل رہائش اختیار کرلی تھی اور اپنا فلمی سفر جاری رکھا۔
وہ ایک رومان پرور شاعر تھے جن کے عشق کی داستانیں سبھی کی زبان پر تھیں اور عشق میں ناکامی نے انھیں سخت مایوس اور تلخ بنا دیا تھا۔ انھوں نے تاج محل کے عنوان سے جو نظم لکھی تھی وہ ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔
تاج تیرے لیے اک مظہر الفت ہی سہی
تجھ کو اس وادیٔ رنگیں سے عقیدت ہی سہی
میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی
ثبت جس راہ میں ہوں سطوت شاہی کے نشاں
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی
میری محبوب پسِ پردہ تشہیر وفا
تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا
مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی
اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا
ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے
لیکن ان کے لیے تشہیر کا سامان نہیں
کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے
یہ عمارات و مقابر یہ فصیلیں یہ حصار
مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں
سینۂ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور
جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خوں
میری محبوب انہیں بھی تو محبت ہوگی
جن کی صناعی نے بخشی ہے اسے شکل جمیل
ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود
آج تک ان پہ جلائی نہ کسی نے قندیل
یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ یہ محل
یہ منقش در و دیوار یہ محراب یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے