کہتے ہیں ثروت حسین نے خود کشی کی تھی۔ اور اس خیال کو تقویت دیتا ہے ان کا یہ شعر:
موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروتؔ
لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خود کُشی کے بارے میں
9 ستمبر 1996ء کو شہرِ قائد سے گزرنے والی ریل کے انجن میں بیٹھے ڈرائیور کو کیا معلوم تھا کہ ثروت حسین نامی کوئی شخص بالارادہ موت کو گلے لگانے چاہتا ہے یا پھر حادثاتی طور پر ٹرین کے نیچے آکر زندگی سے محروم ہو جائے گا۔ کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ انھوں نے خود کُشی کی تھی یا یہ ایک حادثہ تھا۔ لیکن اس روز اردو کے معروف شاعر ثروت حسین کی زندگی کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ایک مشہور شاعرہ کی محبّت میں گرفتار تھے جس کی بے نیازی نے انھیں مایوسی اور بیزاری کی طرف دھکیل دیا تھا اور اسی لیے انھوں نے زندگی کا ساتھ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
ثروت حسین کو صاحبِ طرز شاعر کہا جاتا ہے۔ ان کے والد بدایوں سے ہجرت کرکے کراچی آئے تھے۔ ثروت نے نومبر 1949ء کو کراچی میں آنکھ کھولی۔ ان کی زندگی اس وقت مضافات شمار کیے جانے والے علاقے ملیر میں گزری۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول ملیر کینٹ سے حاصل کرنے کے بعد علاّمہ اقبال کالج، اولڈ ائیر پورٹ سے ایف ۔ اے کیا۔ اسکول کے زمانے ہی سے شاعری کا شوق ہو گیا تھا، لیکن باقاعدہ شاعری کا آغاز کالج کے دور میں کیا، جہاں بیت بازی اور شعروسخن کی محافل میں شریک ہوتے رہے۔
اسی زمانے میں اپنی شاعری مختلف روزناموں اور جرائد کو ارسال کرنے کا سلسلہ شروع کیا جو شایع ہوئیں تو حوصلہ بھی ملا اور خوشی بھی۔
بعدازاں جامعہ کراچی سے ایم۔ اے اردو کی سند حاصل کی۔ اس عرصے میں انھیں کراچی کے ادبی حلقوں میں پہچان مل چکی تھی۔ انھیں ادبی تقریبات، مشاعروں اور ریڈیو پاکستان کے ادبی پروگراموں میں مدعو کیا جانے لگا تھا۔
ثروت حسین کو جامعہ ملّیہ کالج، ملیر میں بطور لیکچرر ملازمت مل گئی جس کے بعد لاڑکانہ اور حیدرآباد کے تعلیمی اداروں میں بھی ذمہ داریاں نبھانے کا موقع ملا اور پھر اسی کالج میں تبادلہ ہوگیا جہاں سے تدریسی سفر شروع کیا تھا۔
ثروت حسین کا اسلوب جداگانہ اور ان کا کلام خوب صورت لفظیات سے آراستہ ہے۔ ان کی غزلیں اور نظمیں اپنے موضوعات کے لحاظ سے بھی منفرد ہیں اور ندرتِ خیال کے ساتھ یہ کلام دل کش اور معنٰی آفریں بھی ہے۔ ثروت نے نثری نظم کو بھی اعتبار بخشا۔
ان کا پہلا مجموعہ آدھے سیّارے پر 1989 میں شائع ہوا تھا جسے ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی ملی۔ دوسری کتاب کا نام خاک دان ہے جو ان کی موت کے بعد 1998ء میں شایع ہوئی۔
ثروت حسین کی ایک غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔
غزل
لہر لہر آوارگیوں کے ساتھ رہا
بادل تھا اور جَل پریوں کے ساتھ رہا
کون تھا میں، یہ تو مجھ کو معلوم نہیں
پُھولوں، پتّوں اور دِیوں کے ساتھ رہا
مِلنا اور بچھڑ جانا کِسی رستے پر
اک یہی قصّہ آدمیوں کے ساتھ رہا
وہ اک سُورج صبح تلک مرے پہلو میں
اپنی سب ناراضگیوں کے ساتھ رہا
سب نے جانا بہت سبک، بے حد شفّاف
دریا تو آلودگیوں کے ساتھ رہا