بدھ, جون 26, 2024
اشتہار

شاہد حمید:‌ اردو زبان و ادب کا محسن

اشتہار

حیرت انگیز

شاہد حمید کا شمار اردو کے اہم ترین مترجمین میں ہوتا تھا۔ ماہرِ لسانیات اور مصنّف شاہد حمید نے غیرملکی ادب سے نہایت معتبر اور وقیع کتب کو اردو میں‌ ڈھالا اور ترجمے جیسے فن کی آب یاری کی جس کے لیے زبان و بیان پر مہارت ہی نہیں بڑی محنت اور ریاضت، توجہ اور لگن کی ضرورت ہوتی ہے۔

شاہد حمید نے 29 جنوری 2018ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے تھے۔ ان کی عمر 90 برس تھی۔ انھیں لاہور کے ایک قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

جالندھر کے شاہد حمید 1928ء میں پیدا ہوئے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ لاہور آئے جہاں‌ گورنمنٹ کالج سے انگریزی میں ایم اے کیا اور تدریس کا پیشہ اختیار کر لیا۔ 1988ء میں بہ حیثیت مدرس ریٹائر ہوگئے۔ فکشن کے تراجم ساتھ ان کا ایک اور اہم کام دو ہزار صفحات پر مشتمل انگریزی اردو ڈکشنری تھی۔

- Advertisement -

انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے معروف نقاد شمیم حنفی نے کہا تھا: یقین کرنا مشکل ہے کہ ہزاروں صفحوں پر پھیلا ہوا یہ غیرمعمولی کام ایک اکیلی ذات کا کرشمہ ہے۔ ممتاز فکشن نگار نیّر مسعود نے انھیں ایک حیرت خیز آدمی قرار دیا تھا۔

مسعود اشعر نے مرحوم سے متعلق لکھا، "اس کی عملی زندگی کا آغاز تو ایک استاد کی حیثیت سے ہوا تھا۔ پاکستان آکر اس نے سب سے پہلے ایک اسکول میں ہی نوکری کی تھی۔ پھر وہ ایسا استاد بنا کہ کئی اخباروں میں کام کرنے کے باوجود ہمیشہ استاد ہی رہا۔ اس کے استاد ہونے کی یہ حیثیت اس کے ترجموں میں بھی نظر آتی ہے۔

وہ مزید لکھتے ہیں، وہ اپنے ترجموں کی وجہ سے ہی علمی اور ادبی حلقوں میں مشہور ہوا۔ لیکن یہ ترجمے ایسے نہیں جیسے دوسرے ترجمہ کرنے والے کرتے ہیں۔ یہ ایک استاد کے ترجمے ہیں۔ اب وہ ٹالسٹائی کے ناول وار اینڈ پیس کا ترجمہ ہو، یا دوستوسکی کے ناولوں برادر کرامازوف اور کرائم اینڈ پنشمنٹ کا، یا جین آسٹن کے ناول پرائڈ اینڈ پریجوڈائس کا، یہ صرف ترجمہ ہی نہیں ہے بلکہ ان ناولوں میں جہاں تاریخی واقعات کا حوالہ آیا ہے، یا عیسائی عقیدے کا ذکر ہے، یا پھر کسی علاقے کا بیان ہے، یا کسی تاریخی خاندان کے احوال ہیں، وہاں ترجمہ کر نے والا یہ استاد اپنے پڑھنے والے پر ہی نہیں چھوڑ دیتا کہ وہ خود ہی اس کے متعلق معلومات حاصل کرتا پھرے بلکہ وہ بڑی عرق ریزی سے تحقیق کرتا ہے اور پورے کے پورے صفحے حاشیوں سے بھر دیتا ہے۔”

شاہد حمید کو کلاسیکی لٹریچر کو اردو کے قالب میں ڈھالنے پر ملکہ حاصل تھا۔ انھوں نے ناولوں کی تاریخ کے تین بڑے شاہ کاروں کا ترجمہ کیا، جنھیں ناقدین نے معیاری اور نہایت معتبر ٹھہرایا۔ ان ناولوں کا ترجمہ کرنے میں انھوں نے کئی برس صرف کیے۔ انھوں نے جسٹس گارڈر کے ناول سوفی کی دنیا اور ہیمنگ وے کے شاہ کار ’’بوڑھا اور سمندر‘‘ کو بھی اردو کا روپ دیا۔

ان کی یادداشتوں‌ پر مبنی کتاب بھی ’’گئے دن کی مسافت’‘ کے عنوان سے شایع ہوچکی ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں