تازہ ترین

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

کلاسیکی دور کے مشہور مگر مشکل گو شاعر شاہ نصیر

شاہ نصیرؔ نے اپنے جوہرِ سخن، طبیعت کی روانی اور مشق و کمال کے سبب خوب شہرت اور اردو کے کلاسیکی دور کے شعرا میں نام و مقام پایا۔ سنگلاخ زمینوں اور مشکل قوافی کے باوجود ان کا کلام خاص و عام میں مقبول ہوا۔ آج شاہ نصیر کا یومِ وفات ہے۔

کہتے ہیں‌، شاہ نصیر کی آواز پاٹ دار تھی جو مشاعروں میں جان ڈال دیتی تھی۔ وہ دہلی میں رہے اور وہاں ادبی محافل اور مشاعروں میں‌ ان کا بہت چرچا تھا۔ وہ جلد ہی اپنی طباعی اور زود گوئی کے سبب درجۂ اُستادی پر فائز ہوگئے۔

شاہ نصیر کا سنِ پیدائش کسی کو معلوم نہیں اور ان کے وطن پر بھی تذکرہ نگاروں نے اختلاف کیا ہے، تاہم اکثر کے نزدیک وہ دہلی کے تھے۔ مولانا محمد حسین آزاد نے اپنے تذکرے میں‌ لکھا ہے کہ شاہ نصیر کا نام محمد نصیر الدّین تھا اور عرفیت میاں کلّو۔ انھوں نے لکھا ہے کہ رنگت کے سیاہ فام تھے، اسی لیے ’’میاں کلّو‘‘ کہلائے۔

ان کے والد شاہ غریب (شاہ غریب اللہ) ایک خوش طینت و نیک سیرت بزرگ تھے۔ شہر کے رئیس و امیر سب ان کا ادب کرتے تھے، مگر وہ گوشۂ عافیت میں بیٹھے، اپنے معتقد مریدوں کو ہدایت کرتے رہے، یہاں تک کہ مغل شہنشاہ شاہ عالم ثانی کے عہد میں وفات پائی۔

انہی کے بعد بیٹے شاہ نصیر نے شاعری میں بڑا نام پیدا کیا اور وہ ایسے شاعر تھے جو دہلی کے مشاعروں میں‌ ضرور دعوت پاتے۔ کلاسیکی دور کے اس شاعر نے 23 نومبر 1837ء کو حیدر آباد دکن میں انتقال کیا اور وہیں دفن ہوئے۔ شاہ نصیر کو نہایت مشکل اور سنگلاخ زمینوں میں شعر کہنا پسند تھا، لیکن وہ زبان و بیان کے ماہر بھی تھے اور یہی وجہ ہے کہ نامانوس اور مشکل قوافی کے ساتھ لمبی لمبی ردیفوں میں غزلیں کہنے کے باوجود ان کی زبان نکھری ہوئی اور انداز دل نشیں ہے۔ ان کی غزلوں میں تشبیہ اور استعارے کا لطف موجود ہے۔

اردو کے تذکرہ نگاروں اور نقّادوں‌ کے مطابق جن سنگلاخ زمینوں میں یہ دو غزلے کہتے دوسروں کو غزل پوری کرنا مشکل ہوتی۔ نصیرؔ ایک زبردست شاعر تھے۔ مشکل ردیف قافیے میں بغیر تشبیہ و استعارے کے بات نہیں بنتی، نصیرؔ کا تخیّل و تصوّر اس میں منجھا ہوا تھا۔ ان کی یہ غزل ملاحظہ کیجیے۔

لیا نہ ہاتھ سے جس نے سلام عاشق کا
وہ کان دھر کے سنے کیا پیام عاشق کا

قصورِ شیخ ہے فردوس و حور کی خواہش
تری گلی میں ہے پیارے مقام عاشق کا

غرورِ حسن نہ کر جذبۂ زلیخا دیکھ
کیا ہے عشق نے یوسف غلام عاشق کا

وفورِ عشق کو عاشق ہی جانتا ہے نصیرؔ
ہر اک سمجھ نہیں سکتا کلام عاشق کا

Comments

- Advertisement -