سید مسعود الحسن کو شعر و سخن کی دنیا تابش دہلوی کے نام سے جانا گیا۔ اردو کے اس مایہ ناز غزل گو شاعر نے 2004ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔ آج تابش دہلوی کی برسی ہے۔
وہ 9 نومبر 1911 کو دہلی میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ بعد ازاں اپنے نانا کے پاس حیدرآباد، دکن چلے گئے۔ وہیں پہلی سرکاری ملازمت شروع کی اور بعد میں پطرس بخاری کے توسط سے آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہوئے۔
تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آگئے اور کراچی کو اپنا مستقر بنایا۔ یہاں ریڈیو پاکستان کے شعبہ خبر سے منسلک ہوگئے۔ تابش دہلوی نے ریڈیو پر خبرنامہ پڑھا اور براڈ کاسٹر کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے کراچی یونیورسٹی سے بی اے کیا۔
1923ء میں انھوں نے شاعری کا آغاز کردیا تھا۔ فانی بدایونی سے اصلاح لیتے رہے اور غزل اور نظم کے ساتھ نعت قصیدہ اور مرثیہ میں طبع آزمائی کی۔
انھیں متعدد ادبی اعزازات سے نوازا گیا۔ انھیں حکومتِ پاکستان نے ’’تمغۂ امتیاز‘‘عطا کیا تھا۔
اردو شاعری میں انھوں نے بڑا نام و مقام بنایا اور مشاعروں میں شرکت کرکے ہم عصر شعرا اور باذوق سامعین سے اپنے کلام پر داد پائی۔
تابش دہلوی کے شعری مجموعے نیم روز، چراغِ صحرا، غبارِ انجم، گوہرِ انجم، تقدیس اور دھوپ چھائوں کے نام سے شایع ہوئے۔
وہ ایک عمدہ نثر نگار بھی تھے اور ان کے قلم سے دنیائے فن و ادب کی کئی شخصیات کا خوب صورت و دل چسپ تذکرہ ہی نہیں نکلا بلکہ متعدد علمی و ادبی واقعات بھی کتابی شکل میں محفوظ ہوگئے۔ دیدہ باز دید ان کی ایک ایسی ہی تصنیف ہے جو ان کی نثر پر گرفت اور کمال کا نمونہ ہے۔
تابش دہلوی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔
کسی مسکین کا گھر کُھلتا ہے
یا کوئی زخمِ نظر کھلتا ہے
دیکھنا ہے کہ طلسمِ ہستی
کس سے کھلتا ہے، اگر کھلتا ہے
داؤ پر دیر و حرم دونوں ہیں
دیکھیے کون سا گھر کُھلتا ہے
پھول دیکھا ہے کہ دیکھا ہے چمن
حسن سے حسنِ نظر کھلتا ہے
میکشوں کا یہ طلوع اور غروب
مے کدہ شام و سحر کھلتا ہے
چھوٹی پڑتی ہے انا کی چادر
پاؤں ڈھکتا ہوں تو سَر کھلتا ہے
بند کر لیتا ہوں آنکھیں تابشؔ
باب نظارہ مگر کُھلتا ہے