منگل, مئی 14, 2024
اشتہار

لازوال گیتوں کے خالق تنویر نقوی کی برسی

اشتہار

حیرت انگیز

آج پاکستانی فلم انڈسٹری کے ممتاز نغمہ نگار تنویر نقوی کی برسی ہے۔ تنویر نقوی یکم نومبر 1972ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے تھے۔

آواز دے کہاں ہے دنیا میری جواں ہے جیسے کئی گیت آج بھی ہماری سماعتوں میں رس گھول رہے ہیں جن کے خالق تنویر نقوی تھے۔

نغمہ نگار تنویر نقوی 6 فروری 1919ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید خورشید علی تھا۔ انھوں نے فلمی دنیا میں تنویر نقوی کے نام سے شہرت پائی۔ وہ 15 سال کے تھے جب شاعری کا آغاز کیا اور 1938ء میں اپنی پہلی فلم ‘شاعر’ کے لیے گیت لکھے۔ اس وقت متحدہ ہندوستان میں بمبئی فلمی صنعت کا مرکز تھا، جہاں تنویر نقوی نے تقریباً آٹھ سال تک گیت نگاری کی۔

- Advertisement -

ان کا تعلق ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تھا اور ان کے بڑے بھائی بھی نوا نقوی کے نام سے شاعری کرتے تھے۔ 1940ء میں تنویر نقوی کا پہلا مجموعہ سنہرے سپنے کے نام سے شائع ہوا۔ اسی کی اشاعت کے بعد انھوں نے بمبئی کی فلم انڈسٹری کا رخ کیا تھا جہاں کئی فلموں کے لیے نغمات تحریر کیے اور نام کمایا۔

قیام پاکستان سے قبل انھوں‌ نے فلم ‘انمول گھڑی’ کے لیے نغمات تحریر کیے تھے جن میں ان کی وجہِ شہرت بننے والا نغمہ آواز دے کہاں ہے بھی شامل تھا۔ یہ اس دور کا سب سے زیادہ مقبول ہونے والا گیت تھا، جس کے بعد ان کے دو نغمات آجا میری برباد محبت کے سہارے اور جواں ہے محبت حسیں ہے زمانہ کو بھی شائقین نے بہت پسند کیا۔

تقسیم کے بعد وہ پاکستان آگئے جہاں ان کی پہلی پاکستانی فلم ‘تیری یاد’ تھی۔ پاکستان میں تنویر نقوی نے 1959ء میں بننے والی فلم ‘کوئل’ کے گیت لکھ کر لازوال شہرت پائی، جس میں رم جھم رم جھم پڑے پھوار یا مہکی فضائیں، گاتی ہوائیں اور دل کا دِیا جلایا نے مقبولیت کے گویا ہفت آسمان طے کیے۔

اسی طرح 1960ء میں فلم ‘ایاز’ ریلیز ہوئی جس کا گیت رقص میں ہے سارا جہاں بھی بہت مقبول ہوا۔ بعد کے برسوں میں فلم ‘انار کلی’ کے گیت کہاں تک سنو گے کہاں تک سناﺅں یا جلتے ہیں ارمان میرا دل روتا ہے سمیت متعدد فلموں کے گیتوں نے تنویر نقوی کو بہترین شاعر اور نغمہ نگار ثابت کیا۔ انھیں فلم و ادب کی دنیا کے کئی اعزازات سے نوازا گیا۔

1965ء کی جنگ میں نشر ہونے والا نغمہ رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو اور چھٹی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے بھی ان کے ناقابلِ‌ فراموش نغمات میں سرفہرست ہیں۔

تنویر نقوی نے فلموں کے لیے متعدد خوب صورت نعتیں بھی لکھیں جن میں ‘نورِ اسلام’ کی ایک نعت نہایت مشہور ہوئی اور یہ کلام آج بھی بے انتہا مقبول ہے۔ یہ نعت آپ نے بھی ضرور سنی ہوگی: شاہِ مدینہ، یثرب کے والی، سارے نبی تیرے در کے سوالی۔ ان کا یہ کلام ہر محفل میں پڑھا گیا اور سوالی گلی گلی پھر کر اسے بلند آواز سے پڑھتے اور لوگوں سے نذرانے وصول کرتے تھے۔

تنویر نقوی نے خوب صورت گیت نگاری پر تین نگار ایوارڈ حاصل کیے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں