تازہ ترین

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزرا قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

یومِ وفات: آزادی کی خاطر سولی چڑھ جانے والے عمر مختار کو صحرا کا شیر کہا جاتا ہے

ٍفیض احمد فیض کے ایک مشہور شعر کا مصرع ملاحظہ کیجیے!

"جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے”

1931ء میں آج ہی کے دن عمر مختار کو سرِ عام پھانسی دی گئی تھی۔ لگ بھگ 20 ہزار افراد کی موجودگی میں "صحرا کا شیر” بڑی شان سے پھانسی گھاٹ پر آیا اور موت کو گلے لگا لیا۔

اس مجاہدِ آزادی کو گرفتار کیا گیا، تو اس موقع پر افسرِ اعلیٰ اور اطالوی فوجیوں نے فخریہ انداز میں "قیدی” کے ساتھ تصاویر بنوائی تھیں اور اس "کار ہائے نمایاں” نے تاریخ کے اوراق میں‌ ان کا نام بھی لکھوا دیا، لیکن آج شاید ہی کوئی انھیں یاد کرتا ہو۔ جب کہ عمر مختار آج بھی دلوں میں زندہ ہیں۔

لیبیا، شمالی افریقا کا عرب ملک ہے جس پر 1911ء میں اٹلی نے قبضہ کرلیا تھا۔ عمر مختار نے اس کے خلاف جنگِ آزادی لڑی تھی۔ وہ 20 برس تک اٹلی کے خلاف آزادی کی جنگ لڑتے رہے اور گرفتاری کے بعد انھیں پھانسی دے دی گئی تھی۔

عمر مختار 20 اگست 1858ء کو ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا پورا نام عمرالمختار محمد تھا۔ کم سنی میں والد کا انتقال ہو گیا اور یوں ابتدائی زندگی غربت و افلاس میں گزری۔ عمر مختار نے ابتدائی تعلیم مسجد میں حاصل کی اور بعد میں ایک جامعہ میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ وہ قرآنِ پاک کے عالم بن گئے اور امام بھی۔ اسی زمانے میں انھوں نے اپنے معاشرتی ڈھانچے کے بارے میں جانا اور حالات سے آگاہی حاصل کی۔ اسی شعور اور فہم کے باعث انھیں‌ قبائلی تنازعات نمٹانے کے لیے منتخب کرلیا گیا۔ بعد ازاں وہ جغبوب میں سنوسیہ تحریک کے ساتھ وابستہ ہوئے۔

اکتوبر 1911ء میں اٹلی اور عثمانی سلطنت میں جنگ کے دوران اٹلی کی بحریہ لیبیا کے ساحلوں تک پہنچ گئی۔ اٹلی کے امیر البحر لیوگی فراویلی نے ترکی کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ یہ علاقہ اٹلی کے حوالے کر دے ورنہ طرابلس اور بن غازی کو تباہ و برباد کردیا جائے گا۔ ترکوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا جس کے بعد اٹلی نے ان شہروں پر تین دن تک بم باری کی اور اعلان کیا کہ طرابلس کے لوگ اٹلی کے ساتھ ہیں۔ اس کے بعد اٹلی کی فوجوں اور لیبیا کی جماعتوں کے مابین مسلح لڑائیاں شروع ہو گئیں۔

عمر مختار صحرائی علاقوں سے خوب واقف تھے اور جنگ کے رموز اور جغرافیائی امور کی بھی سوجھ بوجھ رکھتے تھے۔ انھیں صحرائی جنگ میں مہارت حاصل تھی، اور اٹلی کی فوج کے لیے وہ ایک بڑی مشکل اور رکاوٹ بن گئے تھے۔ عمر مختار نے اپنے چھوٹے گروپوں کے ذریعے اٹلی کی افواج پر کام یاب حملے کیے۔

ان کے جانثاروں نے بڑی مہارت سے حریفوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور فوجیوں پر حملے کرنے کے ساتھ گوریلا جنگ کے وہ تمام حربے استعمال کیے جن سے انھیں‌ زبردست نقصان پہنچا۔

عمر مختار کو ستمبر میں ایک حملے میں زخمی ہوجانے کے بعد دشمن کی فوج نے گرفتار کر لیا۔ اس وقت اٹلی میں مسولینی کی حکومت تھی۔

عمر مختار پر اٹلی کی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور پھانسی کی سزا سنائی گئی جس پر عمل درآمد کے بعد اٹلی کی امید اور خواہشات کے برعکس مزاحمت کی تحریک کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ آخر کار 1951ء میں لیبیا کو آزادی مل گئی۔

لیبیا کی آزادی کے لیے مزاحمت کرنے والے عمر مختار پر ہالی وڈ میں فلم بھی بنائی گئی جو 1980ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم میں ’’عمر مختار‘‘ کا کردار اداکار انتھونی کوئن نے نبھایا تھا۔

Comments

- Advertisement -