اردو کے ممتاز شاعر جعفر طاہر 25 مئی 1977ء کو انتقال کرگئے تھے۔ جعفر طاہر کا شمار ان شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے غزل کو روایتی دائرے سے نکال کر تازگی بخشی اور اس صنفِ سخن کو تخلیق کے نئے آہنگ کے ساتھ وسعت عطا کی۔
29 مارچ 1917ء کو جھنگ میں پیدا ہونے والے جعفر طاہر نے وہیں ابتدائی تعلیم کے مراحل طے کیے اور پھر برّی فوج سے منسلک ہوگئے۔ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد ریڈیو پاکستان راولپنڈی سے وابستہ ہوئے اور اپنی وفات تک یہ تعلق برقرار رکھا۔
جعفر طاہر کے شعری مجموعے ہفت کشور، ہفت آسمان اور سلسبیل کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے تھے۔ ہفت کشور وہ شعری مجموعہ ہے جس پر 1962ء میں طاہر جعفر نے آدم جی ادبی انعام حاصل کیا تھا۔
جعفر طاہر کی غزلوں کے موضوعات اور ان کا اسلوب بھی اپنی انفرادیت کے سبب انھیں تخلیقی وفور سے مالا مال اور ثروت مند ظاہر کرتا ہے۔ جعفر طاہر کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔
یہ تمنا تھی کہ ہم اتنے سخنور ہوتے
اک غزل کہتے تو آباد کئی گھر ہوتے
دوریاں اتنی دلوں میں تو نہ ہوتیں یا رب
پھیل جاتے یہ جزیرے تو سمندر ہوتے
اپنے ہاتھوں پہ مقدر کے نوشتے بھی پڑھ
نہ سہی معنیٰ ذرا لفظ تو بہتر ہوتے
ہم اگر دل نہ جلاتے تو نہ جلتے یہ چراغ
ہم نہ روتے جو لہو آئنے میں پتھر ہوتے
ہم اگر جام بکف رقص نہ کرتے رہتے
تیری راہوں میں ستارے نہ گُلِ تر ہوتے
صورتیں یوں تو نہ یاروں کی رلاتی رہتیں
اے غمِ مرگ یہ صدمے تو نہ دل پر ہوتے
ہم رہے گرچہ تہی دست ہی جعفر طاہرؔ
بس میں یہ بات بھی کب تھی کہ ابو ذر ہوتے
راولپنڈی میں وفات پانے والے اردو کے اس ممتاز شاعر کو جھنگ میں ان کے آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔