آج نام وَر نقّاد، انشائیہ نگار، محقّق اور شاعر ڈاکٹر وزیر آغا کی برسی ہے۔ انھوں نے 2010ء میں آج ہی کے روز ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے اردو ادب کی مختلف اصناف کو نئی جہات سے روشناس کیا اور ادبی و تنقیدی موضوعات کو مختلف زاویے سے پیش کرتے ہوئے نئے رجحانات متعارف کروائے۔
ڈاکٹر وزیر آغا 18 مئی 1922ء کو ضلع سرگودھا کے علاقے وزیر کوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک متموّل علمی گھرانے سے تھا۔ فارسی کی تعلیم اپنے والد سے جب کہ پنجابی کی تعلیم والدہ سے حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج جھنگ سے گریجویشن اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ماسٹرز کرنے کے بعد 1956ء میں پنجاب یونیورسٹی سے طنز و مزاح کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کیا۔
ڈاکٹر وزیر آغا 1960 سے 1963 تک ’’ادبی دنیا‘‘ کے شریک مدیر رہے اور 1966 میں ’’اوراق ‘‘ کا اجرا کیا جو نہایت معیاری اور مقبول جریدہ ثابت ہوا۔
ان کے تنقیدی مضامین “نظمِ جدید کی کروٹیں، تنقید اور احتساب، نئے مقالات، نئے تناظر، دائرے اور لکیریں، تنقید اور جدید اردو تنقید کے نام سے جب کہ ان کی دیگر کتابیں اردو ادب میں طنز و مزاح، اردو شاعری کا مزاج، تخلیقی عمل، مجید امجد کی داستان محبت، غالب کا ذوقِ تماشا کے نام سے منظرِ عام پر آئیں۔ انھیں انشائیہ نگاری میں کمال حاصل تھا۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے انشائیے کی تعریف اور اس کے خدوخال پر بات کرتے ہوئے خود بھی انشائیے لکھے جو علم و ادب کا بڑا سرمایہ ہیں۔ ان کے انشائیے کتابی شکل میں محفوظ ہیں۔
ڈاکٹر وزیر آغا ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ وہ شاعر بھی تھے جن کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے۔ ان میں شام اور سائے، دن کا زرد پہاڑ، نردبان، اک کتھا انوکھی، یہ آواز کیا ہے، چٹکی بھر روشنی شامل ہیں۔
اردو ادب کے اس نام ور تخلیق کار کی خود نوشت سوانح عمری ’’شام کی منڈیر‘‘ کے نام سے شایع ہوئی تھی۔
لاہور میں وفات پانے والے ڈاکٹر وزیر آغا کو ان کے آبائی گاؤں(سرگودھا) میں سپردِ خاک کیا گیا۔