تازہ ترین

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

کے4 منصوبے سے بھی ترستے کراچی کو پانی نہیں مل سکے گا

پانی کو ترستے کراچی کے شہریوں کو کے4 منصوبے...

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

یومِ وفات: چاکلیٹی ہیرو وحید مراد "لیڈی کلر” مشہور ہوگئے تھے

وحید مراد کو چاکلیٹی ہیرو ہی نہیں لیڈی کلر بھی کہا جاتا ہے۔ پُرکشش سانولی رنگت کے ساتھ اُن کا منفرد ہیئر اسٹائل اور اس پر مستزاد بڑی آنکھوں نے اُنھیں نہایت جاذب و جمیل بنا دیا تھا۔ رومانوی ہیرو کی حیثیت سے وہ پاکستان ہی نہیں برصغیر میں مقبول تھے۔ انھیں لوگ چاہتے تھے، پیار کرتے تھے اور بلاشبہ لڑکیاں اُن پر مرتی تھیں۔

وحید مراد 23 سال کے تھے جب ہیرو کے طور پر ان کی شہرت دور دور تک پہنچ چکی تھی۔ اگلے برسوں میں انھوں نے اس حیثیت میں انڈسٹری پر راج کیا، لیکن فلم انڈسٹری میں ان کا یہی عروج اور شہرت ان کی شخصیت میں کجی اور ٹیڑھ کا باعث بھی بنی۔ وہ بد دماغ اور تند خُو مشہور ہوگئے۔

کہتے ہیں سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں۔ 1965ء سے 1975ء تک فلمی پردے پر راج کرنے والے وحید مراد کے اوج کا ستارہ بھی آمادۂ زوال ہوا اور نئے چہروں نے شائقین کی توجّہ سمیٹ لی۔ ادھر وحید مراد کی بعض عادات اور ان رویّے سے بیزار فلم ساز اور ہدایت کار بھی ان سے گریز کرنے لگے اور وہ وقت آیا جب وحید مراد کو ایک پشتو فلم میں کام کرنا پڑا۔

یہ کردار ان کے سابق ڈرائیور اور گھریلو ملازم بدر منیر نے انھیں آفر کیا تھا۔ بدر منیر نے کبھی اپنے اسی مالک کی سفارش پر فلم انڈسٹری میں کام حاصل کیا تھا اور اب وہ پشتو فلموں کے اسٹار تھے۔ انھوں نے پُرانے مالک سے وفا کی اور یوں وحید مراد نے پشتو فلم میں کردار ادا کیا۔

وحید مراد 2 اکتوبر 1938ء کو پیدا ہوئے تھے۔ وہ معروف فلم ڈسٹری بیوٹر نثار مراد کی اکلوتی اولاد تھے جن کا شمار اس دور کے متموّل لوگوں میں ہوتا تھا۔ انھوں نے اپنی اکلوتی اولاد کو بڑے لاڈ پیار اور ناز و نعم سے پالا تھا۔

کراچی میں وحید مراد نے اپنا تعلیمی سفر طے کیا اور جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ بعد میں والد کے ادارے سے وابستہ ہوگئے اور فلمیں بھی بنائیں۔ اسی دوران انھیں اداکاری کا شوق ہوا۔

وہ 1959ء میں فلم ’’ساتھی‘‘ میں ایک چھوٹا سا کردار نبھا چکے تھے۔ جب 1962ء میں وحید مراد کو ایس ایم یوسف نے اپنی فلم ’’اولاد‘‘ کردار سونپا تو اس خوب رُو نوجوان نے خود کو باصلاحیت بھی ثابت کردیا۔ شان دار اداکاری اور اس فلم کی گولڈن جوبلی نے وحید مراد کی اگلی منازل آسان کردیں۔

اس اداکار کو مزید فلموں میں کام مل گیا۔ وحید مراد کی شہرت کا سفر ’’ہیرا اور پتھر‘‘ سے شروع ہوا۔ اس فلم نے انھیں شہرت کی بلندیوں‌ پر پہنچا دیا۔ پاکستان فلم انڈسٹری کے مقبول ترین ہیرو اور کام یاب اداکار وحید مراد نے 125 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور اس زمانے میں‌ ان کی ہر فلم کام یاب رہی۔

وحید مراد بیک وقت اداکار، پروڈیوسر اور اسکرپٹ رائٹر بھی تھے۔ اُن کی آخری فلم ’’زلزلہ‘‘ تھی۔ وحید مراد کے ساتھ اپنے وقت کی نام ور اداکاراؤں نے کام کیا۔ ان پر خوب صورت شاعری اور لاجواب دھنوں‌ میں کئی گیت فلمائے گئے جو آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ وحید مراد اپنے فلمی کیریئر میں 32 ایوارڈ اپنے نام کیے تھے۔

پاکستان فلم انڈسٹری کے چاکلیٹی ہیرو وحید مراد سے متعلق زخمی کانپوری کی کتاب “ذکر جب چھڑ گیا” سے منتخب کردہ یہ قصّہ پڑھیے۔

“یہ 1964 کی بات ہے جب فلم ساز اور ہدایت کار پرویز ملک کراچی میں اپنی فلم ہیرا اور پتھر کی عکس بندی کررہے تھے۔ فلم کے ہیرو وحید مراد تھے جو بڑے تنک مزاج ثابت ہوئے تھے۔

ایک روز کراچی کے ساحلی علاقے کلفٹن میں فلم کی شوٹنگ کے دوران وحید مراد کسی بات پر یونٹ کے ایک لڑکے سے الجھ گئے۔ اس لڑکے سے خدا معلوم کون سی غلطی سرزد ہوگئی کہ وحید مراد نے اس غریب کو ایک زور دار تھپڑ رسید کر دیا۔ سب نے یہ منظر دیکھا اور سب کو بڑا دکھ ہوا۔

وہ غریب اپنا گال سہلا کر اپنے کام میں لگ گیا، مگر پورے یونٹ نے وحید مراد کی اس حرکت کا برا منایا اور جب کھانے کا وقفہ ہوا تو پرویز ملک نے وحید مراد سے بڑی نرمی سے کہا کہ تمھیں اس غریب لڑکے کے ساتھ یہ سلوک نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یہ دیکھ کر یونٹ کے دوسرے افراد نے بھی وحید مراد سے احتجاج کیا اور یہ معاملہ اتنا بڑھا کہ یونٹ کے آدمیوں نے کام کرنے سے انکار کر دیا۔

وحید مراد اس فلم کو شیڈول کے مطابق مکمل کرانا چاہتے تھے۔ اس لیے جب یہ منظر دیکھا تو فورا اس لڑکے کو بلا کر گلے لگا لیا اور معافی مانگی اور اس کی دل جُوئی کے لیے اسے سو روپے کا نوٹ بھی دیا۔ یوں معاملہ رفع دفع ہوا۔

بعد میں اس واقعے کی اطلاع ان کے گھر پہنچی تو ان کی ماں نے بھی بہت سمجھایا جس کا اثر یہ ہوا کہ جب ایک ہفتے بعد عید آئی تو وہ عید کا کافی سامان لے کر اس لڑکے کے گھر گئے تاکہ اس کی دل جوئی ہوسکے۔ وہ گھرانہ انتہائی غریب تھا چناں چہ عید کے موقع پر یہ غیبی مدد پاکر بڑا خوش ہوا۔ اس موقع پر وحید مراد نے ایک بار پھر اس لڑکے سے معافی مانگی۔”

وحید مراد کی زندگی کا باب 23 نومبر 1983ء کو ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا تھا۔

Comments

- Advertisement -