ادب اور صحافت میں زیبُ النسا حمیدُ اللہ صرف اسی لیے ممتاز نہیں کہ انھوں نے اپنے دور میں تخلیقِ ادب اور کارِ صحافت کے لیے انگریزی زبان کا انتخاب کیا جو دنیا میں سب سے زیادہ بولی اور پڑھی جاتی ہے بلکہ انھوں نے اس زبان میں اپنی جان دار تخلیقات اور شان دار صحافت کے سبب نام و مقام بنایا تھا۔
وہ انگریزی زبان کی معروف ادیب، شاعر اور صحافی تھیں۔ انھوں نے کراچی سے انگریزی جریدے دی مرر کا اجرا کیا اور پہلی خاتون مدیر رہیں۔
آج زیبُ النسا حمید اللہ کی برسی ہے۔ وہ سن 2000ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔
کلکتہ ان کا وطن تھا جہاں وہ 25 دسمبر 1921ء کو پیدا ہوئیں۔ تقسیمِ ہند کے بعد انھوں نے پاکستان ہجرت کی۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور نہایت زرخیز ذہن کی مالک تھیں۔ انھوں نے اکتوبر 1951ء میں انگریزی جریدے دی مرر کا اجرا کیا۔ کراچی سے شایع ہونے والا یہ جریدہ اپنی معیاری تحریروں، مفید اور معلوماتی مضامین کی وجہ سے پاکستان بھر میں مقبول ہوا۔ اس کی اشاعت کا سلسلہ 1972ء تک جاری رہا۔
تقسیمِ ہند سے قبل ہی زیبُ النسا حمید اللہ مختلف ہندوستانی اخبار و جرائد میں اپنے مضامین کی وجہ سے پہچان بنا چکی تھیں۔ انھیں پہلی مسلمان کالم نویس بھی کہا جاتا ہے۔
پاکستان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانوں اور انگریزی زبان و ادب کے قارئین میں ان کی ادبی اور سماجی موضوعات پر تحریروں کے علاوہ شایع ہونے والے سیاسی کالم بہت مقبول ہوئے۔
ان کے شعری مجموعے The Lotus Leaves اور The Flute of Memory کے نام سے شایع ہوئے۔