تازہ ترین

وزیراعظم شہبازشریف کو امریکی صدر جو بائیڈن کا خط، نیک تمناؤں کا اظہار

واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیر اعظم شہباز...

بابر اعظم کو دوبارہ قومی ٹیم کا کپتان بنانے کا فیصلہ ہو گیا

پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کو ایک بار...

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

جون تک پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل کرلیا جائے گا، وفاقی وزیر خزانہ

کراچی : وزیرخزانہ محمداورنگزیب کا کہنا ہے کہ پی...

یومِ‌ وفات: نڈر، بے باک اور باضمیر، ضمیر نیازی صحافت کی آبرو تھے

پاکستان کے نام وَر صحافی، مصنّف اور آزادیٔ صحافت کے علم بردار ضمیر نیازی 11 جون 2004ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ وہ پاکستانی میڈیا کی تاریخ لکھنے والے پہلے صحافی تھے۔ انھوں نے نہ صرف پاکستانی صحافت کی تاریخ مرتّب کی بلکہ اس موضوع پر متعدد کتابیں بھی لکھیں جو اس شعبے میں راہ نما اور اہم سمجھی جاتی ہیں۔

ضمیر نیازی کی مشہور کتابوں میں ’پریس ان چینز‘، ’پریس انڈر سیج‘ اور ’ویب آف سنسر شپ‘ شامل ہیں۔ جنرل ضیاءُ الحق کے دورِ حکومت میں ان کی کتاب ’پریس ان چینز‘ پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ یہ کتاب بے حد مقبول ہوئی اور اس کے متعدد ایڈیشن اور تراجم شامل ہوئے۔ پی پی پی کے دور میں جب شام کے چند اخبارات پر پابندی لگی گئی تو انھوں نے احتجاجاً حکومت کی جانب سے دیا گیا تمغہ برائے حسنِ کارکردگی واپس کر دیا۔ انھیں جامعہ کراچی نے بھی ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دینے کا اعلان کیا تھا، مگر ضمیر نیازی نے اس کے لیے گورنر ہائوس جانے سے انکار کردیا تھا۔

ضمیر نیازی 1932ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر ممبئی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام ابراہیم جان محمد درویش تھا۔ ضمیر نیازی نے صحافتی زندگی کا آغاز ممبئی کے ایک اخبار انقلاب سے کیا۔ بعد میں‌ ہجرت کر کے پاکستان آ گئے اور کراچی میں سکونت اختیار کر لی جہاں صحافتی سفر دوبارہ شروع کیا۔ ڈان اور بزنس ریکارڈر سے منسلک رہنے کے بعد عملی صحافت چھوڑ کر خود کو تحقیق اور تصنیف تک محدود کرلیا تھا۔

ضمیر نیازی کی دیگر تصانیف میں باغبانِ صحرا، انگلیاں فگار اپنی اور حکایاتِ خونچکاں شامل ہیں۔ اس نڈر اور بے باک صحافی کو کراچی کے قبرستان میں‌ آسودہ خاک کیا گیا۔

Comments

- Advertisement -