سیاسی اختلافات کی بھڑکتی آگ اور حبس زدہ کیفیت میں قومی اسمبلی سے میثاق پارلیمنٹ کی آواز اٹھنا کسی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی مانند اور انتہائی خوش آئند ہے، لیکن ملک میں سیاسی جماعتوں کے ہونے والے گزشتہ اعلان میثاق اور سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کے ماضی میں کردار کو دیکھ کر اس پر سوالیہ نشان خود بخود لگ جاتا ہے۔
اس وقت ملک میں سیاسی اختلاف کی آگ ایسی بھڑکی ہوئی ہے جو بجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی اور نہ ہی کسی جانب سے اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کی مؤثر کوششیں ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ ایسا ہی کچھ گزشتہ ہفتے اس وقت ہوا جب ایک درجن کے قریب پی ٹی آئی پارلیمنٹرین کو پارلیمنٹ ہاؤس سے رات کے اندھیرے میں گرفتار کر لیا گیا۔ بظاہر یہ اقدام اسلام آباد پولیس کا تھا لیکن اس وجہ سے جمہوری روایات اور رویے کو نقصان پہنچا اور حکومت کو بیک فٹ پر جانا پڑا، کیونکہ اس اقدام کی صرف پی ٹی آئی یا اپوزیشن اتحاد ہی نہیں بلکہ پی پی سمیت دیگر پارلیمانی جماعتوں نے بھی مذمت کی اور دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی۔
اراکین پارلیمنٹ کی گرفتاری کے بعد قومی اسمبلی میں بہت ساری تقاریر ہوئیں۔ اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو لتاڑا گیا تو حکومتی بینچوں کی جانب سے موجودہ اپوزیشن کو اس کے دور حکومت میں اس وقت کی اپوزیشن (ن لیگ) کے ساتھ کیے جانے والے اقدامات کی یاد دہانی کرائی گئی، لیکن اگر حکومت وقت کے مطابق ماضی میں پی ٹی آئی کا اپوزیشن سے رویہ درست اور جمہوری نہ تھا تو آج کیسے موجودہ اقدامات کو جمہوری اور مثبت قدم کی سند دی جا سکتی ہے۔
اسی ہلڑ بازی کے دوران اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے پارلیمنٹ کو احسن طریقے سے چلانے کے لیے اراکین کو چارٹر آف پارلیمنٹ بنانے کی تجویز دی اور اس کے رولز طے کرنے کے لیے حکومتی اور اپوزیشن اراکین پر مشتمل 18 رکنی کمیٹی جس میں حکومتی اتحاد سے اسحاق ڈار، خواجہ آصف، نوید قمر، خورشید شاہ، خالد مقبول صدیقی، سید امین الحق، علیم خان اور اپوزیشن اتحاد سے اختر مینگل، اعجاز الحق، خالد حسین مگسی، صاحبزادہ حامد رضا، بیرسٹر گوہر علی، محمود خان اچکزئی، حمید حسین، شاہدہ بیگم شامل کیا گیا، لیکن یہ کمیٹی پارلیمنٹ کو جمہوری اور با اخلاق انداز میں چلانے کے رولز کیا طے کرتی کہ اس کا پہلا اجلاس ہی اختلاف کا شکار ہوگیا اور ایوان کا ماحول بہتر بنانے کے لیے ہونے والی پہلی بیٹھک ہی ایسے گرما گرم ماحول کے ساتھ منتج ہوئی جس میں حسب روایت ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی گئی۔
گزشتہ سال قومی اسمبلی اور سینٹ سے توہین پارلیمنٹ قانون منظور کیا گیا تھا۔ اس بل کے مطابق کسی رکن پارلیمنٹ کا استحقاق مجروح کرنے والے یا توہین کرنے والے شخص کو کم از کم 6 ماہ قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اس سزا کا فیصلہ پارلیمنٹ کی ایک خصوصی کمیٹی کر سکتی ہے۔ اس کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کے نمائندوں کو شامل کیا جائے گا۔ کمیٹی کو سول عدالت کے اختیارات حاصل ہوں گے۔ کمیٹی توہین پارلیمنٹ کے کسی بھی ملزم کو طلب کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ اس کمیٹی کے سامنے جھوٹ بولنا بھی توہین پارلیمنٹ کے زمرے میں آئے گا۔ کمیٹی کے فیصلوں پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے ذریعہ عملدرآمد ہو گا۔ اس کمیٹی کے فیصلوں کیخلاف اپیل بھی اسپیکر یا چیئرمین سینٹ سنے گا۔ تاہم پی ٹی آئی ارکان کے ساتھ ہونے والے واقعے کے بعد اسپیکر کی جانب سے اس قانون کی مدد نہ لینا ایک نئی بحث کو جنم دیتا ہے۔
سیانے کہتے ہیں کہ ایک دانہ دیکھ کر پوری دیگ کا احوال معلوم ہو سکتا ہے اور دال میں کالا کی مثل بھی بہت مشہور ہے تو صرف اسی ایک اجلاس اور حکومتی رویے سے پوری دیگ کا احوال بھی پتہ چل جاتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ سیاسی کھچڑی کی دال میں کالا نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی ہے اور یہاں آشیرباد کے بغیر کسی کی دال گلنے والی نہیں ہے۔
جن لوگوں نے اسپیکر قومی اسمبلی کے میثاق پارلیمنٹ کی تجویز سے امیدیں لگائی تھیں، وہ ذرا ماضی میں جھانک لیں کہ پاکستانی سیاست میں اب تک ایسے جتنے میثاق (معاہدے) ہوئے، ان میں ما سوائے ذاتی مفاد کے کسی بھی میثاق پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل نہیں کیا گیا۔
پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ میں جو میثاق سب سے مشہور ہوا وہ 18 سال قبل 14 مئی 2006 کو لندن میں ہونے والا میثاق جمہوریت تھا جس پر سہرا پیپلز پارٹی کے سر جاتا ہے۔ اس میثاق نے 90 کی دہائی کی ایک دوسرے کے لیے بدترین دشمن کا کردار ادا کرنے والی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو اکٹھا کیا اور پاکستانیوں نے وہ خوش کن منظر بھی دیکھا کہ ماضی میں ایک دوسرے کو غدار اور سیکیورٹی رسک قرار دینے والے بینظیر بھٹو اور نواز شریف ایک ہی اسٹیج پر ایک ساتھ بیٹھے نظر آئے، لیکن یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی کیونکہ کچھ عرصہ بعد ہی بینظیر بھٹو اور اس وقت کے آرمی چیف وصدر پرویز مشرف کے درمیان ہونے والے معاہدے نے اس میثاق کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں۔
لندن میثاق جمہوریت کے اہم نکات میں یہ بھی شامل تھا کہ کوئی سیاسی جماعت کسی آمر سے کوئی رابطہ نہیں کرے گی، جب کہ دوسری سیاسی جماعت کو گرانے کے لیے کسی خفیہ منصوبے کا حصہ، خفیہ ملاقاتیں اور غیر سیاسی اقدام نہیں کرے گی، لیکن اس میثاق کی موت تو اسی وقت ہو گئی جب بینظیر بھٹو نے اس وقت کے آرمی چیف اور صدر پرویز مشرف سے خفیہ ملاقاتیں کیں اور اپنی وطن واپسی کی راہ ہموار کی۔ اس کے لیے ایک قومی مفاہمتی آرڈیننس لایا گیا، جو این آر او کے نام سے مشہور ہوا۔ گو کہ اس این آر او کا فائدہ صرف پیپلز پارٹی کو ہی نہیں بلکہ مسلم لیگ ن کی جلاوطن قیادت کو بھی ہوا اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے، تاہم اس کے بعد بینظیر بھٹو کے27 دسمبر 2007 کو لیاقت باغ میں قتل نے پاکستانی سیاست کو ایک دوراہے پر لاکھڑا کیا تھا۔
بینظیر قتل کے بعد پی پی نے ن لیگ کو ساتھ ملا کر وفاق میں حکومت بنائی جو چند ماہ بھی نہ چل سکی جب کہ شہباز شریف کی پنجاب حکومت پر گورنر راج لگا کر ’’میثاق جمہوریت‘‘ کو اپنی موت مارنے کی کوشش کی گئی۔ اسی دور میں جب میمو گیٹ اسکینڈل سامنے آیا تو شریف برادران نے بھی سو سنار کی ایک لوہار کی مثل کو عملی جامہ پہنانے کا خواب دیکھتے ہوئے بھرپور جواب دینے کی ٹھانی اور اور کالا کوٹ پہن کر اس خواہش میں سپریم کورٹ جا پہنچے کہ ابھی پی پی حکومت کا خاتمہ اور اس وقت کے صدر زرداری کو سزا ہو لیکن یہ خواہش نا تمام رہی۔ اسی دوران میڈیا میں ن لیگی قیادت کی رات کی تاریکی میں خفیہ طاقتوں سے خفیہ ملاقاتوں کی خبریں بھی میڈیا کی زینت بنیں۔ پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد پی ڈی ایم حکومت میں میثاق معیشت کی گونج سنائی دی لیکن اس معاملے پر کسی پیش رفت کے بجائے اس حکومت نے مہنگائی کو وہ بام عروج دیا کہ حکومت سب کچھ بھول کر اپنے ہی بوجھ تلے دبنے لگی۔
تاہم ایسا نہیں کہ سارے معاہدے (میثاق) بدعہدی کا شکار ہوئے۔ جو سیاسی جماعتیں عوامی جمہوری روایتوں کی پاسداری والے میثاق جمہوریت پر عملدرآمد میں ناکام رہیں۔ انہوں نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے مخفی اور غیر دستخطی معاہدوں کی پاسداری دل وجان سے کی اور مخالف بینچوں میں ہوتے ہوئے ایسے کئی بل اتفاق رائے سے منظور کرائے جو ان سب کے مشترکہ مفادات ہوتے تھے۔
کسی بھی ملک کی ترقی اس کی معیشت سے جڑی ہوتی ہے، لیکن پاکستان کی حالت یہ ہے کہ پوری معیشت آئی ایم ایف کے کنٹرول میں ہے۔ ہمارے دوستوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے اور دیرینہ دوست بھی اب التفات برتنے میں ہچکچانے لگے ہیں۔ ہم قدرت کی لاتعداد نعمتیں اور زمینوں میں پوشیدہ خزانے رکھنے کے باوجود معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہو پا رہے ہیں، کیونکہ معیشت کی ترقی کا دارومدار استحکام پر منحصر ہوتا ہے، پھر خواہ وہ سیاسی ہو یا انتظامی۔ لیکن پاکستان میں اس وقت جو حالات ہیں، ان میں سیاسی استحکام کی کوئی امید دکھائی نہیں دے رہی، بلکہ سیاسی اختلافات جس کو دشمنی کا روپ دے دیا گیا ہے وہ اس قدر پھیل چکی ہے کہ اگر اس کو فوری طور پر بجھانے کی کوشش نہ کی گئی، تو نہ جانے کیا کچھ اس کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ ملک کی خاطر سب کو سیاسی انا بالائے طاق رکھ کر صرف اس جذبے ’’پاکستان ہیں تو ہم ہیں‘‘ کے ساتھ کام کرنا ہوگا ورنہ ہماری موجودہ روش ہمیں نا قابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔