تازہ ترین

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پھر جمہوریت کا کیا ہو گا؟

فلورنس کے مضافات کے ایک گاؤں میں لگ بھگ چار سو برس پہلے، گاؤں کے لوگ اپنے گھروں میں تھے یا کھیتوں میں کام کر رہے تھے کہ انہوں نے گرجا گھر کی گھنٹی کی آواز سنی۔

پرہیز گاری کے ان دنوں میں گھنٹی بار بار بجا کرتی، اس لیے اس آواز پر کوئی حیران نہ ہوا۔ مگر یہ گھنٹی موت کا اعلان تھی اور گاؤں میں کسی کی موت کی خبر نہیں تھی۔ گاؤں والے جلد ہی گرجا گھر کے سامنے اکٹھا ہوگئے اور یہ انتظار کرنے لگے کہ اب انہیں بتایا جائے گا کہ کون مرگیا ہے۔

گھنٹی اور کچھ دیر تک بجتی رہی پھر خاموش ہوگئی۔

تب ایک دیہاتی گرجے سے باہر آیا، وہ وہاں عام دنوں میں گھنٹی بجانے والا نہیں تھا۔ گاؤں والوں نے اس سے پوچھا کہ گھنٹی بجانے والا کہاں گیا اور یہ کہ کون مرگیا۔ دیہاتی نے جواب دیا: "گھنٹی میں نے بجائی تھی۔ میں نے انصاف کی موت کی گھنٹی بجائی تھی، اس لیے کہ اب انصاف نہیں رہا۔”

علاقے کا لالچی زمین دار اپنی زمین کی حد بندی کے پتھروں کی جگہ خاموشی سے بدلتا جارہا تھا اور دیہاتی کی زمین پر قبضہ کرتا جا رہا تھا۔ ہر مرتبہ جب زمین دار حد بندی کے پتھروں کی جگہ بدلتا، دیہاتی کی ملکیت زمین تھوڑا سا اور سُکڑ جاتی۔ غریب دیہاتی نے احتجاج کیا، پھر رحم کی درخواست کی اور آخر کار قانون سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ اس کی زمین یوں ہی لٹتی رہی۔ آخر کار مایوس ہو کر اس نے اعلان کرنے کا فیصلہ کیا (اگر آپ ساری زندگی گاؤں میں رہے ہیں تو پھر یہی گاؤں آپ کے لیے ساری دنیا ہے) کہ اب انصاف نہ رہا۔

شاید وہ سمجھتا تھا کہ اس کی یہ وحشت زدہ حرکت ساری کائنات کی گھنٹیوں کو جنبش میں لے آئے گی۔ شاید وہ سمجھتا تھا کہ یہ گھنٹیاں تبھی خاموش ہوں گی جب انصاف دوبارہ جی اٹھے گا۔ مجھے یہ نہیں معلوم کہ پھر کیا ہوا۔ مجھے نہیں معلوم کہ آیا گاؤں والے اس غریب دیہاتی کی مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے یا پھر ایک بار جب کہ انصاف کی موت کا اعلان ہوچکا تھا، وہ سر جھکائے اپنی روزمرہ زندگی کی مشقت کی طرف لوٹ آئے۔ تاریخ کبھی مکمل کہانی نہیں بیان کرتی۔

میں تصور کرتا ہوں کہ یہ واحد موقع تھا، دنیا میں کسی بھی جگہ جب کہ گھنٹی نے انصاف کی موت کا ماتم کیا تھا۔ یہ گجر پھر نہ بجایا گیا مگر انصاف روز مرتا ہے۔ اور جب بھی انصاف زخموں کی تاب نہ لاکر ڈھیر ہوجاتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ان لوگوں کے لیے کوئی وجود ہی نہ تھا جو اس پر اعتبار کرتے تھے، جو اس کی توقع رکھتے تھے، جس کی توقع کے ہم سب حق دار ہیں: سچا اور کھرا انصاف۔

میں اس انصاف کی بات نہیں کر رہا ہوں، جو تھیٹر کے اداکاروں کا سا رنگ دھار لیتا ہے اور کھوکھلی خطابت سے ہمیں دھوکا دیتا ہے۔ یا وہ انصاف جو اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ دیے جانے اور ترازو کے پلڑے جھک جانے کی اجازت دیتا ہے۔ میں اس انصاف کی بات نہیں کر رہا جس کی تلوار کی دھار ایک طرف سے تیز ہے اور دوسری طرف سے کُند۔ میرا انصاف منکسر المزاج ہے اور ہمیشہ مسکینوں کا ساتھ دیتا ہے۔ اس سیاق و سباق میں انصاف، اخلاقیات کا ہم معنی ہے اور روحانی صحت کے لیے لازمی۔ میں صرف اس انصاف کی بات نہیں کر رہا جو عدالت سے حاصل ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی اہم تر، وہ انصاف جو فطری طور پر معاشرے کے اپنے اعمال سے پھوٹتا ہے۔ وہ انصاف جو ہر انسان کے اس حق کا احترام کرتا ہے کہ ایک بنیادی اخلاقی اور لازم کے طور پر اپنا وجود رکھے۔

گھنٹیاں صرف موت کی خبر پر نہیں بجا کرتی تھیں۔ وہ دن اور رات کے پہر کا اعلان کرتی اور ایمان والوں کو بلایا کرتی تھیں۔ حالیہ دنوں تک وہ لوگوں کو سانحے، سیلاب، آتش زدگی، تباہی اور خطرے سے متنبہ کرتی تھیں۔ اب ان کا واحد سماجی منصب رسمی رہ گیا ہے۔ اب اس دیہاتی کا روشن خیال یا تو پاگل پن سمجھا جائے گا یا قابلِ دخل اندازیٔ پولیس۔

آج اور گھنٹیاں اس امکاں کے دفاع اور تصدیق میں بج رہی ہیں کہ انصاف کو کم از کم اس دنیا میں قائم تو کیا جاسکتا ہے۔

اس طرح کا انصاف جو روحانی عافیت کے لیے بلکہ جسمانی صحت کے لیے بھی لازمی ہے۔ اگر ہمیں یہ انصاف میّسر ہوا تو پھر کوئی بھوکا مرتا اور نہ ان بیماریوں کا شکار ہوتا جو لوگوں کے لیے قابلِ علاج ہیں، باقی لوگوں کے لیے نہیں۔ اگر ہمیں یہ انصاف میّسر ہوتا تو عالمِ وجود بنی نوعِ انسان کے تقریباً نصف کے لیے وہ ہولناک سزا نہ ہوتا جو ہمیشہ سے اس طرح معلوم ہوتا آیا ہے۔

اب نئی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ نئی گھنٹیاں جو بج رہی ہیں، وہ اختلافی اور سماجی تحریکیں جو نئے انصاف کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ جس انصاف کے لیے بج رہی ہیں وہ ہر انسان کے لیے مناسب حصّے کی فراہمی کا عہد کرتا ہے اور اس میں تبدیلی لانے کی طاقت ہے، تمام انسان اس کو خلقی طور پر اپنا سمجھتے ہیں۔ یہ انصاف آزادی اور قانون کی حفاظت کرتا ہے مگر ان کی نہیں جو ان دونوں کے منکر ہیں۔

ہمارے پاس اس انصاف کے لیے ضابطہ موجود ہے جو ہماری فہم میں آسکتا ہے۔ پچھلے پچاس برس سے انسانی حقوق کے اعلان نامے میں محفوظ رہا ہے، وہ تیس اصول جن کا ذکر اگر ہوتا بھی ہے تو مبہم طریقے سے۔ آج ان کو قرونِ وسطیٰ کے اس اطالوی دیہاتی کی ملکیت سے زیادہ حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے اصولوں کی سالمیت اور اس کے مقاصد کی وضاحت میں، یہ اعلان نامہ جن الفاظ میں لکھا گیا ہے۔ ایک نقطے کی تبدیلی کے بغیر، دنیا کی ہر سیاسی جماعت کے منشور کی جگہ لے سکتا ہے۔

میں خاص طور پر ان سے مخاطب ہوں کہ جس کو ہم بایاں بازو کہتے ہیں۔ اپنی اپروچ میں فرسودہ اور دقیانوسی، یہ دنیا کی تلخ حقیقتوں سے نمٹنے کے ناقابل یا ان سے بے تعلق نظر آتا ہے۔ یہ اس کی طرف سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہے جو ابھی سے ظاہر ہے، وہ مہیب ڈراوے جو مستقبل میں اس عقلی اور حساس وقار کے لیے خطرہ ہیں کہ جس کو ہم انسانیت کی آرزو سمجھتے ہیں۔ یہی بات ملکی ٹریڈ یونینز اور بین الاقوامی ٹریڈ یونین تحریک کے لے بھی درست ہے۔ شعور یا لاشعوری طور پر، خاموشی سے مان جانے والی اور بیوروکریسی زدہ، ٹریڈ یونین ازم ہمارے پاس باقی رہ گئی ہے۔ وہ بڑی حد تک اس سماجی تعطل کی ذمہ دار ہے جو معاشی عالم گیریت کے ہم رہ آئی ہے۔ مجھے یہ کہتا اچھا نہیں لگتا، مگر میں اس کو چھپا نہیں سکتا۔ اگر ہم نے بروقت مداخلت نہ کی۔۔۔۔ اور وہ وقت ہے، آج اور ابھی ۔۔۔۔ تو معاشی عالم گیریت کی بلّی لامحالہ طور پر انسانی حقوق کے اس چوہے کو پھاڑ کھائے گی۔

اور پھر جمہوریت کا کیا ہوگا؟ "عوام کی حکومت، عوام کے لیے حکومت، عوام کی جانب سے حکومت؟” میں اکثر یہ دعوے سنا کرتا ہوں، ان کی جانب سے جو حقیقی معنوں میں مخلص ہیں اور ان کی جانب سے بھی جن کو نیک نیتی کا سوانگ رچانے میں فائدہ ہے، کہ حالاں کہ اس سیّارے کا بیش تر حصہ مایوس کن حالت میں ہے لیکن یہ صرف جمہوری نظام میں ہی ممکن ہے کہ ہم انسانی حقوق کے لیے مکمل یا کم از کم مناسب احترام حاصل کرسکیں گے۔ اس بارے میں کوئی شبہ نہیں، بس شرط یہ ہے کہ حکومت اور سماجی تنظیم کے جس نظام کو ہم جمہوریت کہتے ہیں، وہ واقعی جمہوری ہو۔

لیکن ایسا نہیں ہے۔ درست ہے کہ ہم ووٹ دے سکتے ہیں۔ درست ہے کہ رائے دہندگان (ووٹرز) کی حیثیت سے جو خود مختاری و حاکمیت ہمیں تفویض ہوئی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس بات کا انتخاب کرسکتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں ہماری نمائندگی کون کرے گا، عام طور پر یہ سیاسی جماعتوں کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ درست ہے کہ نمائندوں کی تعداد اور سیاسی جمع و اتحاد جو اکثریت کے حصول کی ضرورت عائد کرتی ہے۔ ہمیشہ حکومت قائم کرلیتے ہیں۔ یہ سب درست ہے، لیکن یہ بھی درست ہے کہ جمہوری عمل کے لیے موقع یہیں سے شروع ہو کر یہیں ختم ہو جاتا ہے۔

ایک رائے دہندہ (ووٹر) ہم دردی سے عاری حکومت کا پانسہ الٹ سکتا ہے اور اس کی جگہ دوسری حکومت کو لاسکتا ہے، لیکن اس حقیقی قوت پر جو دنیا پر حکمرانی کرتی ہے، لہٰذا اس کے ملک اور خود اس کے اوپر بھی حکم راں ہے، اس پر اس کے ووٹ کا کوئی خاطر خواہ یا سمجھ میں آنے والا اثر مرتب ہوسکا ہے۔ ہُوا ہے اور نہ کبھی ہوگا۔ یہ طاقت معاشی طاقت ہے، بالخصوص وہ ہمہ وقت مائل بہ وسعت شعبہ جس کو کثیر قومی تجارتی ادارے (ملٹی نیشنلز) غلبے کی اس حکمت عملی کے ساتھ چلاتے ہیں، جو اکثریت کی فلاح و بہتری کے اس تصور سے مخاصمت رکھتی ہے، جمہوریت، اپنی تعریف کے مطابق، جس کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا ہے مگر ہم میکانیکی طور پر اس طرح باتیں کرتی ہیں اور سوچتے ہیں جو ہم کو اس معلومات پر عمل کرنے سے روکتی ہے۔ سو اگر ہم جمہوریت کے بارے میں اس طرح باتیں کرتے رہے گویا وہ زور آور اور مؤثر ہے۔ جب کہ ہمارے پاس جو باقی رہ گیا ہے وہ کسی دنیوی انبار کی رسمی، بے ضرر حرکات و سکنات اور اشاروں پر مشتمل ہے۔

اور ہم یہ دیکھنے سے قاصر ہیں، گویا یہ بات واضح نہ ہوکہ ہماری حکومتیں، وہی حکومتیں جن کا ہم نے بہتر یا بدتر طور پر انتخاب کیا ہے اور جن کے لیے ہم پر بنیادی ذمّہ داری عائد ہوتی ہے بڑی تیزی کے ساتھ ان لوگوں کے سیاسی منتظمین کا کردار ادا کرنے لگی ہیں جن کے پاس حقیقی معنوں میں معاشی زور ہے۔ حکومتیں بس اب اس کام کی رہ گئی ہیں کہ ان قوانین کے مسّودے تیار کرتی رہیں کہ جن کی ضرورت بڑے معاشی عوامل یا کھلاڑیوں کو ہے۔ مناسب عوامی (پبلک) یا نجی (پرائیوٹ) چکر میں ملفوف، یہ قانوں سازی پھر سماجی منڈی میں کس احتجاج کا موجب بنے بغیر متعارف کرائی جاسکتی ہے۔ اور احتجاج اگر ہوتا بھی ہے تو چند ایک، کبھی مطمئن نہ ہونے والی اقلیتوں کا احتجاج۔

پھر ہم کیا کریں؟ ہم ہر چیز پر بحث کرتے ہیں: ادب، ماحول، کہکشاں کا سفر، سبز خانہ اثرات، کوڑے لگانے کے طریقے اور ٹریفک کی رکاوٹیں۔ مگر ہم جمہوری نظام پر کبھی بحث نہیں کرتے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی ایسی چیز ہے کہ جس کو وقت کے انجام تک ہاتھ نہیں لگایا جاسکتا۔

ان بہت سے معاملات کے ساتھ کہ جن پر ہمیں بحث کرنا چاہیے، ہمیں اشد ضرورت ہے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے، جمہوریت اور اس کے زوال کے اسباب پر بین الاقوامی مباحثہ کیا جائے۔ ہمیں شہریوں کے اس عمل دخل پر مباحثے کی ضرورت ہے جو سیاسی و سماجی زندگی میں اور پھر ریاستوں اور عالم گیر معاشی و تجارتی قوتوں کے درمیان ہونا چاہیے۔

ہمیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کون سی چیزیں ہمیں فروغ دیتی ہیں اور کون سے عوامل جمہوریت سے منکر ہیں۔ خوشی اور وقار کے حق کے بارے میں انسانیت کے مصائب اور امیدوں کے بارے میں، انسانوں کے بارے میں، انفرادی طور پر بھی اجتماعی طور پر بھی۔ خود فریبی ساری غلطیوں میں سے بدترین ہے۔ لیکن خود فریبی ہمارے چاروں طرف موجود ہے۔

(حوزے سارا میگو (پرتگال) کی تحریر جس کا اردو ترجمہ آصف فرخی نے کیا ہے)

Comments

- Advertisement -