لندن : انسانی حقوق کی تنظیم نے برطانیہ کے ایئرپورٹس اور بندرگاہوں پر مسلمان مرد و خواتین کو محض ان کے مذہبی عقائد کی بنیاد پر 6 گھنٹوں سے زائد تک روکنے اور ان سے مضحکہ خیز سوالات پوچھنے والے عملے کو اسلاموفوبیا کا متاثرین قرار دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق کیج نامی تنظیم نے بتایا کہ اسلاموفوبیا میں مبتلا حکام مسلمان خواتین کو اسکارف اتارنے پر مجبور کردیتے ہیں،تنظیم کے مطابق سال 2000 سے اب تک صرف مسلمان مرد و خواتین کو ایئرپورٹس اور بندرگاہوں پر روکنے کے 4 لاکھ 20 ہزار واقعات ریکارڈ کیے گئے جبکہ گرفتاری کی شرح 0.007 فیصد رہی۔
غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کی تنظیم نے 10 شہریوں کی وساطت سے اعلیٰ پولیس حکام کو شکایت درج کرائی اور’برٹش مسلم‘ تنظیم کے ذریعے برطانوی وزیراعظم سے ’شیڈول 7‘ قانون سے متعلق تحفظات کا اظہار کیا۔
واضح رہے کہ دہشت گردی ایکٹ 2000 کے شیڈول 7 کی بنیاد پر ایئرپورٹ کا تفتیشی عملہ بغیر کسی قابل ذکر جواز کے مسافروں کو غیرمعینہ وقت کے لیے روک کر تفتیش کرسکتا ہے۔
تنظیم کے ڈائریکٹر عدنان صدیقی نے اپنے مراسلہ میں لکھا کہ لاکھوں مسلمانوں کو ’بغیر کسی شبہ‘ کے روک لیا جاتا ہے اور یہ عمل اسلاموفوفیا کا عکاس ہے جسے ہراساں کے زمرے میں دیکھا جائے۔
لندن سے تعلق رکھنے والے ایک مسلمان نے بتایا کہ 2005 کے بعد سے برطانیہ میں داخل ہوتے وقت انہیں مجموعی طور پر 40 مرتبہ ایئرپورٹ پر شیڈول 7 کے تحت روکا گیا اور ایک مرتبہ بھی کوئی جرم ثابت نہیں ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ فرانس، بیلجیم اور اٹلی سے واپسی پر انہیں تقریباً 95 فیصد روکا گیا،ان کا کہنا تھا کہ میں ہر مرتبہ برطانیہ میں داخل ہوتے وقت حکام کے سوالات سے پریشان آچکا ہوں۔
ادھر کیمبریج یونیورسٹی کی 2004 میں ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا کہ ایئرپورٹ پر روکے گئے 88 فیصد لوگ مسلمان تھے۔
شیڈول 7 کے تحت روکے گئے بیشتر مسلمانوں نے بتایا کہ ایئرپورٹ کا سیکیورٹی عملہ ان سے ان کے مذہب کے بارے میں سوالات کرتا ہے، مثلاً کیا آپ باقاعدگی سے عبادت کرتے ہیں، کبھی مکہ گئے، کیا باقاعدگی سے روزے رکھتے ہیں، جیسے سوالات کیے جاتے۔
تنظیم کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ جنگ زدہ ملک شام میں مقامی تنظیم کے لیے فلم بنانے والے ایک مسلمان فلمساز نے بتایا کہ ایئرپورٹ سیکیورٹی حکام اس طریقے سے روکتے اور سوالات پوچھتے ہیں، جس سے محسوس ہوتا ہے کہ ہم اسلامی عقائد کو تسلیم کرکے کوئی جرم کر چکے ہیں۔