دیو آنند صاف گو آدمی اور حیرت انگیز شخصیت کے مالک بھی تھے۔ دیو آنند کے بارے میں یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ وہ زندگی کو گزارنے کے بجائے اسے جینے پر یقین رکھتے تھے۔ عمر کے آخری حصے میں پہنچ کر بھی دیو آنند کا انداز وہی تھا جس میں وہ پُرجوش اور زندگی سے پیار کرنے والے شخص نظر آتے ہیں۔
ہندوستان کی فلمی صنعت میں دیو آنند کا کیریئر بطور اداکار پانچ دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ 2011ء میں آج ہی کے دن دیو آنند اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔ دیو آنند بولی وڈ کے ان اداکاروں میں شامل ہیں جنھیں اداکاری میں ایک ادارے کی حیثیت حاصل رہی۔ اپنے مخصوص انداز میں مکالموں کی ادائيگی کے لیے مشہور دیو آنند نے اداکاری کے علاوہ عشق اور سیاست دونوں میں ناکامی کا منہ دیکھا، لیکن بطور اداکار ہر خاص و عام کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔
دیو آنند کے ناکام عشق کا قصہ یہ ہے کہ فلم ’ودیا‘ کے ایک گانے ’کنارے کنارے چلے جائیں گے‘ کی عکس بندی کی جا رہی تھی۔ دیو آنند اور اداکارہ ثریا کشتی میں سوار تھے جو اچانک پلٹ گئی۔ دیو آنند نے کسی طرح ثریا کو ڈوبنے سے بچا لیا۔ جہاں اس حادثے کا خوب چرچا ہوا، وہیں اس حادثے کے بعد دونوں فن کاروں کی محبّت کا بھی شہرہ ہونے لگا، لیکن کہتے ہیں کہ ثریا کی نانی کی وجہ سے ان کی شادی نہیں ہوسکی۔ اس واقعہ کے کئی سال بعد اداکارہ نے فلمی میگزین کو اپنے انٹرویو میں بتایا کہ میں نے بعد میں دیو آنند سے کہا کہ ’اس دن اگر آپ مجھے نہیں بچاتے تو میں ڈوب جاتی، انھوں نے جواب دیا کہ آپ ڈوب جاتیں تو میں بھی مر جاتا۔‘
عملی سیاست میں دیو آنند کا حصّہ لینا اس لیے قابلِ ذکر ہے کہ وہ واحد بولی وڈ اسٹار تھے جس نے قومی سطح کی سیاسی پارٹی تشکیل دی تھی، اور اپنے نظریے اور اصول کی بنیاد پر حکم رانوں کی مخالفت بھی کی۔
دیو آنند نے متحدہ ہندوستان میں شکرگڑھ، پنجاب میں 26 ستمبر 1923ء کو ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کا نام دھردیو پشوری مل آنند تھا۔ گریجویشن انگریزی ادب میں لاہور کے گورنمنٹ کالج سے کیا، لیکن آگے تعلیم حاصل نہیں کرسکے۔ والد نے انھیں نوکری کرنے کو کہہ دیا تھا تاکہ گھر کے اخراجات میں ان کا ہاتھ بٹا سکیں۔ اسی شہر سے انھوں نے ایک دن ممبئی کا سفر اختیار کیا اور پھر وہیں کے ہو رہے۔ یہ 1943ء کی بات ہے جب دیو آنند نوکری تلاش کرنے کے بجائے فلم انڈسٹری میں قسمت آزمانے ممبئی روانہ ہوئے تھے۔ لیکن اتنی آسانی سے کام کہاں ملتا تھا۔ کچھ کوششوں کے بعد جب ملٹری سینسر آفس میں کلرک کی نوکری ملی تو وہاں لگ گئے۔ تقریباً ایک سال تک یہ نوکری کی اور پھر اپنے بڑے بھائی چیتن آنند کے پاس چلے گئے جو اس وقت ہندی ڈرامہ ایسوسی ایشن سے وابستہ تھے۔ وہاں دیو آنند کو اداکاری کرنے کا موقع مل گیا۔ دیو آنند چھوٹے موٹے کردار ادا کرنے لگے۔
سال 1945ء میں فلم ’ہم ایک ہیں‘ سے بطور اداکار دیو آنند کو اپنے نئے سفر کے آغاز کا موقع ملا۔ سال 1948ء میں فلم ضدی پردے پر سجی جو ان کے فلمی کیریئر کی پہلی ہٹ فلم ثابت ہوئی۔ دیو آنند نے اسی عرصے میں فلم ڈائریکشن کے شعبے میں بھی قدم رکھ دیا کام یاب فلمیں بنائیں۔
1954ء میں اداکار کی شادی کلپنا کارتک سے ہوئی جو مشہور اداکارہ تھیں۔ دیو آنند نے ہالی وڈ کے تعاون سے ہندی اور انگریزی دونوں زبانوں میں فلم گائیڈ بنائی، جس پر انھیں بہترین اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ انھوں دو فلم فیئر اپنے نام کیے۔
بطور ہدایت کار ان کی فلموں میں 1950ء کی فلم افسر کے علاوہ ہم سفر، ٹیکسی ڈرائیور، ہاؤس نمبر 44، کالا بازار، ہم دونوں، تیرے میرے سپنے و دیگر شامل ہیں۔ بھارت میں انھیں پدم بھوشن اور ہندی سنیما کے معتبر ترین دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
دیو آنند کا فلمی دنیا میں ان کے شائقین کو وہ انداز بہت بھایا جس میں اداکار کچھ جھک کر، خاص طرح سے لہراتے ہوئے چلتے تھے، اور ان کی مخصوص آواز میں مکالمہ سماعتوں سے ٹکراتا تھا۔ اسی طرح ان کے ملبوس کا حصہ یعنی اسکارف اور سَر پر بیگی ٹوپی بالخصوص شائقین کو بہت بھاتی تھی۔
بھارتی حکومت نے دیو آنند کو پدبھوشن اعزاز سے نوازا۔ انھیں دادا پھالکے اعزاز بھی دیا گیا۔ دیو آنند کو کئی فلم فئیر ایوارڈ بھی دیے گئے۔ وہ فلم ساز اور ہدایت کار بھی تھے اور ان کی ایک فلم گائیڈ آسکر کے لیے نام زد ہوئی تھی۔ دیو آنند نے جو کردار ادا کیے ان پر اپنی چھاپ چھوڑ گئے۔ اداکار کی مقبول ترین فلموں میں ’پیئنگ گیسٹ، بازی، جویل تھیف، سی آئی ڈی، جانی میرا نام، امیر غریب، ہرے راما ہرے کرشنا، ضدی اور ٹیکسی ڈرائیور‘ شامل ہیں۔