ماہرین رکازیات نے ایسے مینڈک کے بارے میں بتایا ہے جو زمین پر اب تک دستیاب علم کے مطابق سب سے بڑے جان دار ڈائنوسار کا بھی شکار کرتا ہے۔
2008 میں مڈغاسکر میں ایک بہت بڑے مینڈک کے فوسلز دریافت ہوئے تھے، ماہرین رکازیات کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے ان فوسلز کا جائزہ لینے کے بعد دریافت کیا ہے کہ اس کے جبڑے غیر معمولی طور پر طاقت ور تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مینڈک اپنے نوکیلے دانتوں کی مدد سے ڈائنوسار کی کھال تک پھاڑ سکتا تھا، اور شاید چھوٹے ڈائنوسارز کا شکار بھی کیا کرتا تھا۔
ماہرین کے مطابق یہ مینڈک آج سے 7 کروڑ سال پہلے، ڈائنوسار کے زمانے میں موجود تھا، جب کہ جسامت میں یہ بہت بڑا تھا، یہ دریافت امریکی، برطانوی اور آسٹریلوی سائنس دانوں نے مشترکہ طور پر کی ہے، جس کی تفصیلات ’سائنٹفک رپورٹس‘ نامی تحقیقی مجلے میں آن لائن شائع ہو چکی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ’بیلزیبوفو‘ (Beelzebufo ampinga) نامی یہ معدوم مینڈک اپنی ساخت اور خدوخال کے اعتبار سے موجودہ زمانے کے ’سیراٹوفرائس‘ (Ceratophrys) قسم کے مینڈکوں جیسا تھا، لیکن اپنی 41 سینٹی میٹر لمبائی اور تقریباً 10 پونڈ وزن کے ساتھ یہ ان سے کہیں زیادہ بڑا تھا۔
یہ جاننے کے لیے کہ بیلزیبوفو مینڈکوں کے جبڑے کتنے طاقت ور تھے، ماہرین نے سیراٹوفرائس مینڈکوں کا جائزہ لیا، جس سے پتا چلا کہ 4.5 سینٹی میٹر جسامت والے سیراٹوفرائس مینڈک اپنے شکار پر 6.6 پاؤنڈ جتنی قوت لگا سکتے ہیں۔
موجودہ مینڈکوں کے حساب سے یہ قوت اگرچہ بہت زیادہ ہے لیکن جب بیلزیبوفو مینڈک کے جبڑوں کی 15.4 سینٹی میٹر چوڑائی اور جسم کی 41 سینٹی میٹر لمبائی کو مد نظر رکھتے ہوئے حساب لگایا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ صرف جبڑوں کی مدد سے اپنے شکار پر 494 پونڈ جتنی زبردست قوت لگا سکتے تھے۔
ماہرین کے مطابق اس کا مطلب یہ ہوا کہ نوکیلے اور مضبوط دانتوں کی بدولت یہ مینڈک اپنے شکار کی کھال پھاڑ سکتے تھے، جب کہ انڈے سے نکلنے والے نوزائیدہ ڈائنوسار بھی ان کی غذا میں شامل رہے ہوں گے، اس لیے انھیں Devil Frog کہا گیا ہے۔