فطرت (Nature) ایک وسیع اور بنیادی تصور ہے لیکن اس سے عام طور پر انسان کی پیدائشی حالت، اس کے بنیادی رجحانات اور وہ خصوصیات مراد لے لی جاتی ہے جو اسے فطری طور پر عطا کی گئی ہیں۔
مگر فطرت ایک وسیع، خودمختار، اور پیچیدہ نظام ہے جو اربوں سالوں سے اپنے قوانین کے تحت چل رہا ہے۔ یہ انسان سے الگ اور اس سے کہیں بڑا ہے، اور چاہے انسان موجود ہو یا نہ ہو یہ نظام اپنے بل پر چلتا رہتا ہے۔
فطرت کا انسانی وجود سے آزاد پہلو
قدرتی نظام (Natural Systems): فطرت کائنات کا وہ حصہ ہے جو اپنے اندرونی قوانین سے وجود میں آیا اور چل رہا ہے، جیسے سورج، چاند، ستارے، سمندر، پہاڑ، اور زمین کے اندرونی عمل (جیسے زلزلے یا آتش فشاں)۔ یہ سب انسان سے آزاد ہیں اور اپنے فطری قوانین کے تحت کام کرتے ہیں۔
حیاتیاتی تنوع (Biodiversity): فطرت میں تمام جان دار شامل ہیں، جیسے جانور، پرندے، کیڑے مکوڑے، پودے، اور جرثومے (Microorganisms)۔ یہ سب ارتقائی عمل کے نتیجے میں وجود میں آئے اور انسان کے بغیر بھی اپنی زندگی کے چکر (Life Cycles) مکمل کرتے ہیں، جیسے شہد کی مکھیوں کا چھتا بنانا یا درختوں کا بڑھنا۔
موسمی اور ماحولیاتی عمل (Environmental Processes): فطرت میں وہ تمام واقعات شامل ہیں جو انسان کے کنٹرول سے باہر ہیں، جیسے بارش، طوفان، موسموں کا بدلنا، یا سمندری لہروں کی حرکت۔ یہ عمل زمین کے فطری توازن اور سورج، چاند، اور سیاروں کے باہمی تعامل سے چلتے ہیں۔
کیمیائی اور طبیعیاتی قوانین (Chemical and Physical Laws): فطرت کو چلانے والے بنیادی قوانین جیسے کشش ثقل (Gravity)، توانائی کا تبادلہ (Thermodynamics)، یا آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا چکر (Carbon Cycle) انسان سے آزاد ہیں۔ یہ قوانین کائنات کے آغاز سے موجود ہیں اور فطرت کے ہر جزو کو متاثر کرتے ہیں۔
خودکار توازن (Self-Regulation): فطرت کا ایک اہم پہلو اس کا خود کو متوازن رکھنے کا نظام ہے۔ مثال کے طور پر، جنگلوں میں شکار اور شکار کرنے والے جانوروں کے درمیان توازن، یا سمندر میں پانی کے بخارات بننے اور بارش کا عمل، یہ سب انسان کی مداخلت کے بغیر چلتے ہیں۔
فطرت کا انسانی وجود سے جڑا پہلو
سائنسی طور پر فطرت کو عام طور پر انسانوں، جانوروں، پودوں اور مجموعی طور پر کائنات کے فطری نظام کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اسے حیاتیات، جینیات، اور ارتقائی سائنس (Evolutionary Science) کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ فطرت کا وہ پہلو ہے جو انسان کے وجود سے جڑا ہوا ہے۔
جینیاتی بنیاد (Genetics): سائنس کے مطابق انسان کی فطرت کا بڑا حصہ اس کے جینز سے طے ہوتا ہے۔ جینز وہ بنیادی اکائیاں ہیں جو والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہیں اور ان میں انسان کی جسمانی خصوصیات (جیسے رنگت، قد) اور کچھ بنیادی رویوں کے رجحانات شامل ہوتے ہیں۔
جبلت (Instincts): انسان اور دیگر جان داروں میں کچھ فطری رویے ہوتے ہیں، جو بغیر سیکھے موجود ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، نومولود بچے کا دودھ پینے کی کوشش کرنا یا خطرے سے بچنے کی جبلت۔ یہ ارتقائی عمل (Evolution) کا نتیجہ مانے جاتے ہیں جو بقا کے لیے ضروری ہیں۔
دماغ اور رویہ (Brain and Behavior): سائنس کہتی ہے کہ انسان کا دماغ (خاص طور پر نیورو کیمیکلز جیسے ڈوپامائن اور سیروٹونن) اس کی فطرت کو متاثر کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، سماجی تعلق قائم کرنے کی خواہش یا خوف کا ردعمل دماغ کے فطری نظام کا حصہ ہیں۔
ماحول سے تعامل (Interaction with Environment): اگرچہ فطرت جینیاتی طور پر طے ہوتی ہے، لیکن سائنس یہ بھی مانتی ہے کہ ماحول (Nurture) اسے شکل دیتا ہے۔ اسے ’’نیچر بمقابلہ نیچر‘‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یعنی فطرت اور تربیت مل کر انسان کے رویوں اور شخصیت کو تشکیل دیتے ہیں۔
ارتقائی نقطہ نظر (Evolutionary Perspective): ارتقائی حیاتیات کے مطابق فطرت میں موجود خصوصیات وہ ہیں جو لاکھوں سالوں کے دوران بقا اور تولید (Survival and Reproduction) کے لیے موزوں ثابت ہوئیں۔ مثلاً انسان کا سماجی ہونا اسے گروہوں میں زندہ رہنے میں مدد دیتا ہے۔
سائنسی طور پر انسانی فطرت کو جامد چیز نہیں، بلکہ ایک متحرک عمل کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو جینیات، دماغی ڈھانچے اور ارتقائی دباؤ سے مل کر بنتا ہے۔ نیورو سائنس کے تناظر میں انسانی فطرت (Human Nature) کو دماغ کے ڈھانچے، اس کے کیمیائی عمل، اور عصبی نظام (Nervous System) کے فطری رجحانات کے ذریعے سمجھا جاتا ہے۔ جس کے مطابق انسان کے بنیادی رویے، جذبات، اور فیصلہ سازی کا تعلق دماغ کے فطری نظام سے ہے۔
انسانی فطرت نیورو سائنس کے تناظر میں
دماغ کا ڈھانچا (Brain Structure): انسانی دماغ 3 بنیادی حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جو فطرت کا حصہ ہیں: ریپٹیلین دماغ (Reptilian Brain) جو بنیادی جبلتوں (جیسے بھوک، خوف، بقا) کو کنٹرول کرتا ہے، لمبک سسٹم (Limbic System) جو جذبات (محبت، غصہ، خوشی) سے جڑا ہے، اور نیو کورٹیکس (Neocortex) جو سوچ، منطق، اور زبان کے لیے ذمہ دار ہے۔ یہ تمام حصے ارتقائی طور پر مختلف مراحل میں تیار ہوئے ہیں اور ان سے انسان کی فطرت متشکّل ہوئی ہے۔
نیورو کیمیکلز (Neurochemicals): دماغ میں موجود کیمیائی مادے جیسے ڈوپامائن (خوشی اور انعام کا احساس)، سیروٹونن (مستقل مزاجی اور اطمینان)، آکسیٹوسن (سماجی تعلق اور اعتماد)، اور کورٹیسول (تناؤ) انسان کے فطری رویوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ماں اور بچے کے درمیان محبت کا رشتہ آکسیٹوسن کی وجہ سے فطری طور پر مضبوط ہوتا ہے۔
جبلی ردعمل (Instinctual Responses): نیورو سائنس کے مطابق انسان کے کچھ ردعمل فطری طور پر دماغ میں پروگرامڈ ہوتے ہیں۔ جیسے فائٹ یا فلائٹ (Fight or Flight) ردعمل، جو ایمیگڈالا (Amygdala) نامی دماغ کے حصے سے کنٹرول ہوتا ہے۔ یہ خطرے کے وقت خود بخود متحرک ہوتا ہے۔ یہ دماغ کے لمبک سسٹم میں بادام کی شکل کا ایک اسٹرکچر ہے۔ اسی طرح، سماجی تعلق کی خواہش دماغ کے انعامی نظام (Reward System) سے جڑی ہے۔
جینیاتی اثر (Genetic Influence): نیورو سائنس جینیات کے ساتھ مل کر بتاتی ہے کہ دماغ کی ساخت اور اس کے نیٹ ورکس جینز سے وراثت میں ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ لوگوں میں تناؤ یا پریشانی کا زیادہ رجحان ان کے دماغ کے کیمیائی توازن اور جینیاتی عوامل کی وجہ سے ہوتا ہے۔
سماجی فطرت (Social Nature): انسان کا سماجی ہونا بھی نیورو سائنسی طور پر اس کے دماغ سے جڑا ہے۔ مرر نیورونز (Mirror Neurons) انسان کو دوسروں کے جذبات سمجھنے اور ان کی نقل کرنے میں مدد دیتے ہیں، جو تعاون اور گروہی زندگی کے لیے فطری ہیں۔ یہ سماجی رجحانات ارتقائی طور پر انسان کی بقا کے لیے اہم رہے ہیں۔
لچک اور سیکھنے کی صلاحیت (Plasticity): دماغ کی نیورو پلاسٹیسٹی (Neuroplasticity) انسانی فطرت کا ایک انوکھا پہلو ہے۔ یعنی، اگرچہ کچھ چیزیں فطری ہیں، لیکن دماغ ماحول سے سیکھ کر خود کو تبدیل بھی کر سکتا ہے۔ یہ فطرت اور تربیت (Nature vs. Nurture) کے تعامل کو ظاہر کرتا ہے۔
فطرت اور ادب
اگرچہ انسان خود کائنات میں پھیلی عظیم تر فطرت کے بے شمار مظاہر میں سے ایک مظہر ہے، تاہم ادب میں فطرت کو زیادہ تر انسان کے مقابلے میں پیش کیا جاتا ہے۔ کبھی یہ دونوں ہم آہنگ دکھائی دیتے ہیں، جیسے قدیم دیہاتی کہانیوں میں، اور کبھی متضاد، جیسے جدید ادب میں جہاں انسان فطرت کو تباہ کرتا نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر انگریزی ناول The Old Man and the Sea میں فطرت (سمندر) اور انسان کے درمیان کشمکش دکھائی گئی ہے۔
فطرت اور ادب کا رشتہ بہت گہرا اور قدیم ہے۔ ادب میں فطرت کو مختلف طریقوں سے پیش کیا جاتا ہے—کبھی اسے انسان کے جذبات کا آئینہ دار بنایا جاتا ہے، کبھی اس کی خوب صورتی کو سراہا جاتا ہے، اور کبھی اسے ایک علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ رومانوی شاعروں جیسے ولیم ورڈز ورتھ اور جان کیٹس کی نظمون میں فطرت مرکزی موضوع رہا، ورڈز ورتھ کا یہ مشہور مصرعہ کتنا خوب صورت ہے ’’Nature never did betray the heart that loved her‘‘۔ یعنی جس دل میں فطرت کا پیار ہوتا ہے، اسے فطرت کبھی دھوکا نہیں دیتا۔
ایک طرف اگر ادیبوں نے فطرت کو ایک روحانی قوت کے طور پر دیکھا، تو دوسری طرف صنعتی انقلاب اور ماحولیاتی مسائل کے بعد ادب میں فطرت کو تباہی کے تناظر میں بھی دیکھا جانے لگا ہے، جدید ناولوں اور شاعری میں فطرت کی بربادی، آلودگی، اور انسان کے ہاتھوں اس کی بے توقیری کو موضوع بنایا گیا۔
کیا فطرت بے رحم ہے؟
بعض اوقات فطرت کو بے رحم کہہ دیا جاتا ہے، اس سوال کا جواب نقطہ نظر پر منحصر ہے۔ سائنسی طور پر فطرت کوئی شعوری ہستی نہیں ہے جو رحم یا بے رحمی کا فیصلہ کرے۔ یہ صرف اپنے قوانین کے تحت کام کرتی ہے، جیسے کشش ثقل، موسم، یا ارتقائی عمل۔ مثال کے طور پر زلزلے، طوفان، یا شکار کرنے اور شکار ہونے کا نظام، یہ فطرت کے عمل ہیں جو کسی جذبات سے متاثر نہیں ہوتے۔ اگر ایک شیر ہرن کا شکار کرتا ہے، تو یہ بے رحمی نہیں، بلکہ فطرت کا توازن ہے، کیوں کہ یہ شیر کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ اسی طرح بیماری یا قدرتی آفتیں بھی فطرت کے عمل کا حصہ ہیں، نہ کہ کوئی دانستہ ظلم۔
فلسفیانہ نقطہ نظر یہ ہے کہ کچھ فلسفی فطرت کو بے رحم سمجھتے ہیں کیوں کہ یہ انسان کے جذبات یا اخلاقیات کی پروا نہیں کرتی۔ مثال کے طور پر تنہائی یا موت کے خوف سے دوچار انسان فطرت کے سامنے خود کو بے بس پا سکتا ہے۔ لیکن دیگر فلسفی جیسے کہ رومانوی مفکرین فطرت کو ایک خوب صورت اور رحم دل قوت سمجھتے ہیں جو انسان کو سکون اور تحریک دیتی ہے، جیسے بہار کے پھول یا سمندر کی لہریں۔
انسانی تجربہ یہ ہے کہ جب فطرت کی تباہ کاریاں، جیسے سیلاب، زلزلے، یا وبائیں، انسانوں کو نقصان پہنچاتی ہیں تو لوگ اسے بے رحم سمجھنے لگتے ہیں۔ لیکن یہ بے رحمی فطرت کی جانب سے کوئی ارادی عمل نہیں، بلکہ اس کے غیر جانب دار قوانین کا نتیجہ ہے۔