سرزمینِ پاکستان زرخیز اذہان کی سرزمین ہے اور اس دھرتی کے ہونہار سپوت اپنے بل پر دنیا بھر میں اپنا لوہا منوانے میں مصروف ہیں، ایسی ایک سحر انگیز شخصیت ڈاکٹر فرقان علی خان ہے جو لاہور میں رہتے ہوئے خاموشی سے بین الاقوامی سطح پر اپنی پہچان بنانے میں مصروف ہیں۔
ڈاکٹر فرقان علی کا تعلق اوکاڑہ سے ہے اور وہ دنیا کے کئی ممالک میں تعلیم کے سلسلے میں مقیم رہے ہیں ، لیکن وطن کی مٹی کی محبت انہیں واپس پاکستان لے آئی اور اب وہ لاہور میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
اے آروائی نیوز نے ان کی خدمات کا جائزہ لیا اور ان سے گفتگو کرنے کے بعد ہم نےسوچا کہ اپنے قارئین کو بتایا جائے کہ ایسے بھی درِ نایاب اسی دھرتی کے مکیں ہیں جن سے ملک اور قوم کا اعتبار ساری دنیا میں مستحکم ہوتا ہے۔
آئیے ان سے گفتگو کرتے ہیں۔
اے آروائی نیوز: آپ طب کے شعبے سے وابستہ ہیں، ہمیں بتائیں کہ ایک میڈیکل سائنس کے طالب علم کو کیا مشکلات درپیش ہوتی ہیں؟۔
فرقان علی خان: جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میڈیکل سائنس کے نصاب کا شمار دیگر پیشوں کی نسبت مشکل ترین نصاب میں ہوتا ہے، اور ہر طالب علم کو اس سے نبرد آزما ہونا لازمی ہے۔ میرے لیے بھی یہ مرحلہ کبھی بھی آسان نہ تھا ، کبھی کبھی مجھے محسوس ہوتا تھا کہ میں کنکریٹ کی دیوار سے اپنا سر ماررہا ہوں لیکن بہرحال میں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنا کام جاری رکھا، نتائج آپ کے سامنے ہیں۔
اے آروائی نیوز: فرقان ‘ آپ کئی ممالک میں رہے ہیں، ہمیں بتائیں کہ بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنا کیسا تجربہ رہا؟۔
فرقان علی خان: میرے خیال میں یہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے یورپ میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا اور اس کی وجہ وہاں کا جدید ترین تعلیمی نظام اور ساتھ ہی عملی مشق کے لیے اعلیٰ ترین لیبارٹریز کی سہولت، دنیا کی بہترین سہولیات سے مزین اسپتال اور عالمی سطح پر پہچانے جانے والے میڈیکل پروفیسرز کے ساتھ کام کرنے کا موقع ہے۔
جہاں تک میرے تجربے کی بات ہے تو یہ انتہائی خوش آئند تھا کہ آپ کو اس قدر اعلیٰ سطح پر جاکر کام کرنے کا موقع ملے، آپ قابل ترین اساتذہ کے زیرِ نگرانی سیکھیں اور یہی میں نے کیا ، یعنی میڈیکل سائنس کی ایڈوانس ترین تکنیک سیکھی۔
اے آروائی نیوز: کیا آپ کو لگتا ہے کہ بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنا پاکستانی طالب علموں کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہے؟۔
فرقان علی خان: یقیناً پاکستانی طالب علموں کے لیے بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنا ایک کھٹن مرحلہ ہے، سب سے پہلے تو ہمیں ان کے اسٹینڈرڈز کا مقابلہ کرنا پڑ تا ہے جو یقیناً پاکستان سے بہت بلند ہیں۔ صرف داخلہ ٹیسٹ ہی ایک مشکل مرحلہ ہے اور ساتھ ہی اس کی فیس بھی بہت زیادہ ہوتی ہے جسے ادا کرنا بہت سے پاکستانی طالب علموں کے لیے کسی صورت ممکن نہیں ہوتا۔ اگر اس مرحلے سے بھی گز جائیں تو یہاں پاکستان میں ٹیسٹ کی تیاری کے لیے ضروری مواد دستیاب نہیں یہ ایک اور بڑی مشکل ہے۔
دوسری سب سے بڑی دشواری ان کا نظامِ تعلیم ہے، ہم ایک بالکل الگ نظامِ تعلیم کے عادی ہوتے ہیں جبکہ بیرونِ ملک رائج طور طریقے پاکستان سے بالکل الگ ہیں۔
تیسرا مرحلہ ویزا کا حصول ہے جس میں پاکستانیوں کو بھارت اور دیگر جنوب ایشیائی ممالک کی نسبت کہیں زیادہ دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کا سبب ہمارے ملک کے حالات ہیں۔
چوتھا اور سب سے مشکل مرحلہ یہ ہے کہ یہاں پاکستان میں بہت زیادہ اسکالر شپس نہیں دی جاتیں اور نہ ہی ان کوئی گائیڈ لائن مہیا کرنے والا میسر ہوتا ہے۔ اس دشواری کو دور کرنے کے لیے میں اکثر لاہور کے میڈیکل کے طالب علموں سے ملاقاتیں کرتا ہوں اور انہیں ان دشواریوں پر قابو پانے کے طریقے بتاتا ہوں۔
اے آروائی نیوز: پاکستان کے نظامِ تعلیم اور وہ ممالک جہاں آپ نے تعلیم حاصل کی ، ان کے نظامِ تعلیم میں کیا بنیادی فرق ہے؟۔
فرقان علی خان: یورپ میں تعلیمی نظام انتہائی اعلیٰ کوالٹی کا اور ریسرچ پر مبنی ہے ، وہاں جدید تکنیک پر زور دیا جاتا ہے جبکہ یہاں پاکستان کا تعلیمی نظام رٹا لگانے پر مبنی ہے جس سے طالب علم کی صلاحیتوں میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوپاتا۔ دیگر ممالک جہاں میں نے تعلیم حاصل کی ان میں تعلیمی نظام سیکھنے کے عمل پر مبنی ہے اور یہی پاکستان اور باقی دنیا کے تعلیمی نظام کا بنیادی فرق ہے۔
پاکستان میں تعلیم کبھی بھی ترجیح نہیں رہی، ہم اپنے کل بجٹ کا محض دو فیصد تعلیم کے لیے مختص کرتے ہیں اور اس میں بھی کرپشن کے مسائل درپیش ہیں، اگر آپ ان ملکوں کی جانب دیکھیں جہاں ترقی کی رفتار بے حد تیز ہے ، وہاں آپ دیکھیں گے کہ تعلیم اور ریسرچ پر کثیر سرمایہ صرف کیا جارہا ہے۔
مثال کے طور پر آکسفورڈ یونی ورسٹی کا کل بجٹ1.4 بلین پاؤنڈ ہے جبکہ پاکستان میں تعلیم کے شعبے کے لیے مختص کی جانے والی کل رقم 68 ملین پاؤنڈ بنتی ہے، اور اس کا بھی کثیر حصہ کرپشن کی نظر ہوجاتا ہے۔
اے آروائی نیوز: آپ نے میڈیکل سائنس پر کتنی کتابیں تحری کی ہیں اور وہ کن ممالک میں پڑھائی جارہی ہیں؟۔
فرقان علی خان: میں اب تک میڈیکل سائنس پر پانچ کتابیں تحریر کرچکا ہوں اور ان میں سے کچھ اس وقت برطانیہ، بھارت، ایران اور مصر میں پڑھائی جارہی ہیں اور کچھ وہاں اساتذہ کی جانب سے طالب علموں کو پڑھنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ کیمبرج میں اپنے قیام کے دوران مجھے نیفرالوجی ( گردے) کے ماہر ترین ڈاکٹرز کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور اسی سبب میں اس قابل ہوا کہ ان موضوعات پر کتب تحریر کرسکوں۔
اے آروائی نیوز: اچھا فرقان ! آپ نے پاکستان میں سی ایس ایس ( مقابلے کا امتحان) کے طالب علموں کے لیے بھی کتابیں تحریر کی ہیں، ان کے بارے میں ہمیں بتائیں؟۔
فرقان علی خان: جی بالکل! میں نے ماحولیاتی سائنس، صنفی علوم اور معلوماتِ عامہ کے موضوعات پر سی ایس ایس کے امتحان میں شرکت کے خواہش مند افراد کے لئے کتب تحریر کی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ان موضوعات پر جو کتابیں پہلے سے موجود ہیں ان میں صرف کاپی پیسٹ سے کام چلایا گیا ہے اور اس مواد میں تحقیق کا فقدان بے پناہ نظر آتا ہے، حد یہ ہے کہ وہ مواد موجودہ رحجانات کے حساب سے اپ ڈیٹ بھی نہیں ہے۔ میں نے اس خلا کو پر کرنے کا بیڑہ اٹھا یا اور اللہ کا شکر ہے کہ سی ایس ایس امتحانات میں شریک ہونے والے ان کتابوں سے بے پناہ استفادہ کررہے ہیں۔
اے آروائی نیوز: ہم جانتے ہیں کہ آپ ادب اور اس سے ملحقہ سرگرمیوں کے دلدادہ ہیں اور اکثر و بیشتر فنون لطیفہ کی ترویج کے لیے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں، اس بارے میں ہمارے قارئین کو کچھ بتائیں؟۔
فرقان علی خان: پڑھنے اور پڑھتے رہنے کی عادت مجھے اپنے والد سے ورثے میں ملی ہے اور ان ہی کی طرح میں بھی کئی زبانوں پر عبور رکھتا ہوں۔ اسی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے میں نے فارسی، روسی، پولش اور لاطینی زبان کے کئی اہم ادب پارے اردو اور انگریزی میں ترجمہ کیے ہیں ، فی الحال وہ پبلش نہیں ہوسکے ہیں۔ میں نے فرنچ ٹی وی کی ایک مختصر دورانیے کی فلم میں بھی کام کیا تھا جو کہ ردیارڈ کپلنگ پر بنی تھی۔
میرے پاس کئی نادر مخطوطات موجود ہیں جن میں 1884 کی ’ اے ڈائری آف برٹش سولجر‘ بھی شامل ہے۔ آپ سمجھ لیں کہ نادر ادب پاروں کو محفوظ کرنا میرا شوق ہے۔ اس کے علاوہ میں ماڈلنگ بھی کرتا رہا ہوں۔
اے آروائی نیوز: جب ہم آپ کے کام اور آپ کی ڈگریز کا جائزہ لیتے ہیں تو ان کے مقابل آپ بہت جوان دکھائی دیتے ہیں، آخر اس کا راز کیا ہے؟۔
فرقان علی خان: آپ کے اس سوال نے مجھے بے ساختہ ہنسنے پر مجبور کردیا ہے، اگر آپ تاریخ کے نامور کرداروں کا مطالعہ کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ قابلیت عمر کی محتاج نہیں ہوتی، یہ سب آپ کے سیکھنے کے رویے ، طریقے اور علوم کی جانب آپ کی معرفت پر منحصر ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر دنیا کا سب سے عظیم فاتح سکندراعظم، 24 سال کی عمر میں لگ بھگ آدھی دنیا فتح کرچکا تھا۔ شہرہ آفاق شاعر جان کیٹس نے اپنی سب شاندار جوانی کے اوائل میں لکھی، فیس بک کے بانی کی عمر دیکھیں آپ اور اسی طرح بہت سی اور بھی مثالیں ہیں جن سے تقابل کیا جائے تو ان کے مقابلے میں ہم نے ابھی کچھ بھی نہیں کیا۔
میں یقین رکھتا ہوں کہ مثبت عادتیں، بڑے کام چھوٹے اور آسان طریقوں سے کرنے میں مدد دیتی ہیں ۔ساتھ ہی دوسروں کو بڑا سوچنے اور خوابوں کو حقیقت میں بدلنا سکھانابھی آپ کے بہت کام آتا ہے۔
اے آروائی نیوز: پنجاب میں ہم نے ماضی میں دیکھا ہے کہ ینگ ڈاکٹر آئے دن احتجاج کرتے رہتے تھے ، ان کی ڈیمانڈز اور حکومت جس طرح انہیں ہینڈل کرتی آئی ہے اس کے بارے میں آپ کی کیارائے ہے؟۔
فرقان علی خان: ینگ ڈاکٹرز اپنے اور مریضوں کے حقوق کے لیے یقیناً ایک جدوجہد کررہے ہیں۔ حکومت کی پاکستان میں صحت کے شعبے پر بالکل بھی توجہ نہیں ہے اور ، نہ صرف ینگ ڈاکٹرز بلکہ کئی نامور ڈاکٹرز بھی ملک میں صحت کے نظام کی بہتری کے لیے اس جدو جہد کا حصہ ہیں۔
اے آروائی نیوز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی طالب علم بین الاقوامی مارکیٹ میں اپنے آپ کو منوانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور اس راہ میں ان کے لیے کیا مشکلات ہیں؟۔
فرقان علی خان: جی ہاں ! پاکستانی طالب علم یقیناً یہ صلاحیت رکھتے ہیں اور ہمارے ہزاروں طالب علم بین الاقوامی مارکیٹ میں جاکر دنیا کی کئی اقوام سے زیادہ اچھی افرادی قوت ثابت ہوتے ہیں۔ پاکستانی نوجوانوں کو درپیش مسائل میں سب سے اہم مسئلہ یہ جاننا ہے کہ اعلیٰ صلاحیتیں کس طرح حاصل کی جاتی ہیں اور انہیں تعمیری مقاصد میں کس طرح استعمال کرکے بین الاقوامی مقابلے میں اپنی جگہ بنائی جاتی ہے۔
اے آروائی نیوز: بہت شکریہ ڈاکٹر فرقان! میڈیکل سائنس کے طالب علموں کے مستقبل کے حوالے سے انہیں کیا پیغام دینا چاہیں گے؟۔
فرقان علی خان: میڈیکل سائنس کے طالب علموں سے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ یہ ایک مقدس پیشہ ہے جس کا بنیادی مقصد انسانیات کی خدمت ہے۔ میڈیکل کے طالب علموں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ انسانوں میں انتہائی اہم شخصیت ہیں اور ان کی پہلی ترجیح ہمیشہ انسانیت ہونی چاہیئے۔ انہیں اپنی تربیت بہ طور مادہ پرست شخصیت کے بجائےا نسان دوست شخصیت کے طور پر کرنی چاہیے اور یہی راستہ انہیں کامیابی کی بلندیوں تک لے جائے گا۔