لاہور: سپریم کورٹ نے زیر زمین پانی نکال کر فروخت کرنے والی کمپنیوں، وفاقی حکومت اور چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا،عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ منرل واٹر کمپنی کا آڈٹ مکمل ہونے تک کمپنی کی سی ای او عدالت میں موجود رہیں، آڈٹ سپریم کورٹ کی عمارت میں ہو گا۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی،عدالتی حکم پر منرل واٹر کمپنی کی جانب سے اکیاسی ڈبوں پر مشتمل ریکارڈعدالت میں پیش کیا گیا،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے متعلقہ دستاویزات مانگیں آپ نے غیر ضروری ڈبے لا کر سپریم کورٹ میں رکھ دئیے،چیف جسٹس نے کمپنی کے وکیل اعتزاز احسن سے کہا کہ عدالت نے فرانزک آڈیٹر مقرر کیا۔ آپ نے اس پر کیسے اعتراض کیا، اب یہ آڈٹ سپریم کورٹ کی عمارت میں ہو گا۔
، عدالت نے یہ بھی کہا کہ اب حجت کے طور پر سی ای او ساتھ بیٹھیں گی،جب تک آڈٹ مکمل نہیں ہوتا کمپنی کی سی ای او ہر روز آڈٹ کا کام مکمل ہونے تک موجود رہیں گی،چیف جسٹس نے ڈپٹی رجسٹرار سپریم کورٹ کو ہدایت کی کہ آڈٹ کے لئے دو کمرے مختص کئے جائیں،کمپنی کی سی ای او اور دیگر سٹاف کو صرف واش روم استعمال کرنے کی سہولت دی جائے،چیف جسٹس نے کہا کہ اگر عدالتی حکم مناسب نہیں تو جا کر ٹی وی پر بیان دے دیں۔
عدالت نے واضح کیا کہ زیر سماعت کیس سے متعلق پہلے ہی بیان بازی سے منع کر چکے ہیں، عدالتی معاون میاں ظفر اقبال کلانوری نے کہا کہ معروف کمپنی نے غیر قانونی طور پر اربوں روپے کا پانی فروخت کر دیا،ٹیکس بھی عوام کی جیب سے دیا جا رہا ہے، کمپنی نے 3 سال میں 2.7 بلین لیٹر پانی استعمال کیا،انہوں نے کہا کہ اعتزاز احسن مفادعامہ کی بجائے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی وکالت کر رہے ہیں جس پر جواب میں اعتزاز احسن نے کہا کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی وکا لت کرنا جرم نہیں۔
میاں ظفر اقبال کلانوری نے کہا کہ کسی کی پگڑیاں اچھالنے کا آپ کوبھی کوئی اختیار نہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کمپنی پانی نکالنے کا ایک پیسے کاسوواں حصہ ٹیکس ادا کر رہا ہے،کمپنی پانی غیرمعیاری ہے میں نے تو پینا چھوڑ دیا، بوتل کے لیبل پر جو لکھا وہ جھوٹ ہے پانی میں منرلز شامل ہی نہیں، ڈی جی فوڈ اتھارٹی کیپٹن عثمان نے کہا کہ بوتل پر موجود لیبل کے مطابق پانی میں منرلز شامل نہیں ہیں۔
فوڈ اتھارٹی کے وکیل میاں افتخار نے کہاکہ مذکورہ کمپنی کا پانی رجسٹرڈ نہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ شیخوپورہ میں ٹربائن لگا کر پانی بوتلوں میں بھر کر بیچا جا رہاہے، جن منرلز کے شامل کرنے کا دعوی کیا گیا وہ کہاں سے درآمد کئے گئے رپورٹ دی جائے۔
، عدالتی حکم پر کمپنی کی سی ای او عدالت میں پیش ہوئیں، عدالت نے کہا کہ بتایا جائےکہ پانی فروخت کرنے کے کیا نرخ ہونا چاہئیں،چیف جسٹس نے واضح کیا کہ منرل واٹر کمپنیوں کی طرف سے فی لیٹر اعشاریہ دو پیسے کی ادائیگی کوئی ریٹ نہیں، کم از کم نرخ 50 پیسے یا 1 روپیہ فی لیٹر ہونا چاہیے،چیف جسٹس نے کہا کہ پانی ملک کا سب سے بڑا عطیہ ہے جو مفت میں دیا جا رہا ہے، کمپنی کرائے کی جگہ لے کر وہاں سے مفت کا پانی بیچ رہی ہے، منرل واٹر کمپنیوں نے اربوں روپے کمائے، 25 سال سے پاکستان میں کام کر رہی ہے اور پانی کی رقم ادا نہیں کی، سیلز ٹیکس تو آپ ادا کرتے ہیں اور پانی کی صورت میں خام مال کے استعمال پر ٹیکس کس نے دینا ہے۔
چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ ہم گھروں پر بمشکل پانی بچا رہے ہیں اور آپ کرائے کی جگہوں سے پانی نکال کر بیچ رہے ہیں، کمپنی کی پورٹ قاسم والی فیکٹری کا بھی دورہ کروں گا کہ پانی کہاں سے لے رہے ہیں، چیف جسٹس پاکستان نے اکاؤنٹنٹ جنرل پنجاب کوفرانزک آڈٹ کے لیے ٹیم تشکیل دے کر رپورٹ پیش کرنے کی ہدای ت کر دی، عدالت نے مزید کارروائی آئندہ جمعرات تک ملتوی کر دی۔