برطانیہ میں کرونا وائرس کی نئی قسم سامنے آنے کے بعد جہاں ایک طرف دنیا نئے سرے سے خوف میں مبتلا ہوگئی ہے، وہیں اب تک کی تیار کی گئی ویکسینز پر بھی سوالیہ نشان کھڑا ہوگیا کہ آیا یہ ویکسینز نئی قسم کے خلاف مؤثر ثابت ہوں گی؟
تاہم ماہرین نے سائنسی تحقیقات سے ثابت کیا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی قسم زیادہ تشویشناک نہیں۔
میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) سے منسلک جریدے میں شائع ایک مضمون کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ اب تک یہ ثابت نہیں ہوا کی وائرس کی یہ نئی قسم دوسری اقسام کے مقابلے میں زيادہ تیزی سے پھیلتی ہے۔
علاوہ ازیں ویکسینز پر کام کرنے والی کمپنیوں یعنی ماڈرنا، فائزر، بائیو این ٹیک اور ری جینرون کا کہنا ہے کہ ان کی تیار کردہ ویکسین نئی قسم کے خلاف بھی فائد مند ثابت ہوگی۔
کرونا وائرس کی یہ نئی قسم برطانوی جین سیکوئینسنگ لیبارٹریز میں دریافت ہوئی تھی اور اسے لندن اور جنوب مشرقی انگلینڈ میں کیسز کی اچانک اضافے کی وجہ بتایا جانے لگا۔
برطانوی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ نئی قسم 70 فیصد زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے تاہم اب مختلف ممالک کے ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی اقسام کے حوالے سے بے بنیاد خوف اور خدشات پھیلائے جارہے ہیں۔
ڈی کوڈ جینیٹکس کے سربراہ کاری سٹیفانسن کا کہنا ہے کہ ہمیں وائرس کی اس نئی قسم سے پریشان ہونے کی ضرورت نہيں ہے اور نہ ہی برطانیہ اور دوسرے ممالک سے آنے والے مسافروں پر پابندیاں عائد کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کے مطابق اس کے متعلق افواہیں اس لیے پھیلائی جارہی ہيں تاکہ لوگوں کو احتیاطی تدابیر کی تعمیل اور سماجی دوری جاری رکھنے پر آمادہ کیا جا سکے۔
دوسری جانب لندن کے امپیریئل کالج میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق وائرس کی نئی قسم واقعی زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہے، ان کے مطابق وائرس کے اسپائک پروٹینز کے جین میں تبدیلیاں ہورہی ہیں اور ویکسینز اسی جین کے خلاف کام کر رہی ہیں۔
برطانوی ماہرین نے یہ بھی کہا کہ ممکن ہے کہ جلد وائرس ان ویکسینز کے خلاف مدافعت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے۔
ماہرین کے مطابق نزلے کے وائرسز کے جینز تبدیل ہونے کی وجہ سے ہمیں ہر سال نئی ویکسین لگوانا پڑتا ہے، اسی طرح ایچ آئی وی کے وائرس کی شکل اتنی تیزی سے تبدیل ہوتی ہے کہ آج دن تک اس کے لیے کوئی بھی ویکسین نہیں بنائی جا سکی۔
کیا یہ تبدیلیاں تشویشناک ہیں؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کا جینوم ایچ آئی وی یا نزلے کے وائرس سے تین گنا بڑا ہے، اور ان دونوں وائرسز کے مقابلے میں کرونا وائرس کی تبدیلی کی رفتار سست ہے۔
ایک اور پہلو یہ ہے کہ کرونا وائرس کا اسپائک پروٹین دوسرے وائرسز سے زيادہ بڑا ہے، اس طرح انسانی جسم کے نظام مدافعت کو حملہ آور ہونے کے لیے زیادہ جگہ ملتی ہے، اور وہ اسپائک پروٹین کے مختلف حصوں کے جواب میں کئی مختلف اینٹی باڈيز پیدا کرسکتا ہے۔
ماڈرنا اور فائزر کی ویکسینز اسی حملے کی حکمت عملی سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسپائک پروٹین میں چھوٹی موٹی تبدیلی سے ان ویکسینز کی اثر اندازی زیادہ متاثر نہيں ہوگی۔
بعض ماہرین کے مطابق لیکن ایک وقت ایسا آئے گا جب کرونا وائرس میں اتنی تبدیلی ہوگی کہ موجودہ ویکسینز بے کار ہوجائیں گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمیں کرونا وائرس کی اقسام پر اسی طرح نظر رکھنی ہوگی جس طرح ہم نزلے کے وائرس پر رکھتے ہیں۔
ادھر جرمنی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر وائرس کی کوئی نئی شکل سامنے آ بھی جائے تو محض چند ہفتوں کے اندر اس کی ویکسین بنائی جاسکتی ہے۔