کراچی: سال 2019 صوبہ سندھ میں تعلیم کے حوالے سے ابتر رہا، رواں برس تعلیمی بجٹ کی صرف 20 فیصد رقم سرکاری اسکولوں پر خرچ ہوسکی، تعلیمی ایمرجنسی کے باوجود شرح خواندگی میں اضافے کے اہداف حاصل نہ ہوسکے۔
تفصیلات کے مطابق سندھ میں تعلیم کا شعبہ رواں برس بھی ابتری کا شکار رہا۔ سندھ حکومت نے تعلیمی سال کے لیے 208.23 ارب روپے مختص کیے تھے تاہم اس میں سے صرف 20 فیصد رقم خرچ کی گئی۔
صوبہ سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کے باوجود 50 فیصد اسکول پینے کے صاف پانی، 46 فیصد بیت الخلا، 63 فیصد بجلی اور 41 فیصد چار دیواری سے محروم ہیں۔
رواں برس نجی اسکولوں کی فیسوں کا معاملہ بھی خبروں کی زینت بنا رہا، سپریم کورٹ کی جانب سے فیسوں میں 20 فیصد کمی کے احکامات کے بعد وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) اور صوبائی وزیر تعلیم متحرک ہوئے اور درجن بھر اسکولوں کی رجسٹریشن منسوخ کی گئی۔
رواں سال بھی حیرت انگیز طور پر سال 2003-2002 کی ترقیاتی اسکیموں پر کام جاری رہا جس کا اعتراف صوبائی وزیر تعلیم نے بھی کیا۔
صوبہ سندھ میں مجموعی طور پر تعلیم کے شعبے سے وابستہ ملازمین کی تعداد دیگر سرکاری ملازمین سے زیادہ ہے تاہم ملازمین کی بھرمار اور کثیر رقم خرچ کرنے کے باوجود صوبے میں شرح خواندگی کے اہداف کو حاصل نہ کیا جا سکا۔