نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی پچھلی تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
وہ تینوں گھنٹہ بھر بیٹھے رہے پھر کمرے میں چلے آئے۔ انھیں نیند آ رہی تھی اور اگلے دن انھیں بہت مصروف گزارنا تھا، اور پتا نہیں کیا واقعات پیش آئیں، جب کہ ڈریٹن کی طرف سے بھی خطرہ موجود تھا، تاہم انھیں یہ امید بھی تھی کہ ڈریٹن اب ان کے راستے میں مزید نہیں آئے کیوں کہ ایک بار اس نے ان کے کمرے میں تباہی مچا کر اپنے نفس کو تسکین پہنچا دی تھی۔ وہ بستر پر لیٹتے ہی سو گئے۔ رات کا کوئی پہر تھا جب دانیال کی نیند ٹوٹی۔ اس کے دل کی دھڑکنیں اچانک تیز ہو گئی تھیں، اس نے گھبرا کر جبران اور فیونا کو آوازیں دے کر جگا دیا۔
’’اٹھو … جبران، فیونا … اٹھو، میں نے کچھ عجیب آوازیں سنی ہیں۔‘‘ وہ دونوں گہری نیند سے اٹھے اور آنکھیں ملنے لگے۔ ’’کیا ہوا دانی؟ تم نے اتنی رات گئے کیوں جگا دیا؟‘‘ فیونا بولی اور تکیے سے ٹیک لگا لیا۔
دانیال نے بتایا کہ اس نے ایک آواز سنی تھی، جیسے کوئی کھڑکی کھرچ رہا ہو۔ جبران نے یہ سن کر اٹھ کر کھڑکی کے پاس جا کر دیکھا۔ اس نے کھڑکی بھی کھول کر نیچے دیکھا لیکن کچھ نہیں تھا۔
’’دانی، کھڑکی پر ہوا کی وجہ سے آوازیں پیدا ہوئی ہوں گی۔ کچھ نہیں ہے، سو جاؤ۔‘‘ جبران نے کہا اور واپس بستر پر آ کر لیٹ گیا۔ فیونا نے بھی سونے کے لیے کہہ دیا۔ انھیں سوئے ہوئے بھی چند ہی منٹ ہوئے ہوں گے کہ دانیال کی آنکھ ایک بار پھر کھل گئی۔ آواز اب کہ بہت واضح طور پر سنائی دی تھی، اس نے پھر فیونا کو جگا دیا۔
’’میں نے آواز سنی ہے، میں کوئی خواب نہیں دیکھ رہا، کھڑکی کے باہر ضرور کچھ ہے۔‘‘
’’اوہو، دانی تم ہمیں سونے نہیں دو گے، تمھیں وہم ہو رہا ہے۔‘‘ فیونا نے اس بار جھنجھلا کر کہا۔ لیکن دانیال بہ ضد تھا، اس نے تجویز بھی دی کہ فیونا کچھ دیر یوں ہی لیٹی رہی اور سوئے نہ، وہ آواز ضرور سن لے گی۔ فیونا نے ہامی بھر لی اور تکیے سے ٹیک لگا کر انتظار کرنے لگی۔ کچھ ہی دیر بعد کھڑکی پر کھرچنے کی آواز آئی تو وہ اچھل کر بیٹھ گئی۔ اس کا دل بھی تیز تیز دھڑکنے لگا۔ آدھی رات کو کھڑکی پر کوئی پراسرار آواز کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ وہ بستر سے اترتے ہوئے بولی: ’’جیسے ہی آواز دوبارہ آئے گی ہم کھڑکی کھول کر باہر دیکھیں گے، آؤ تم بھی۔‘‘
وہ دونوں کھڑکی کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ جبران کی نیند بھی دوبارہ ٹوٹ گئی تھی، وہ انھیں کھڑکی کے پاس کھڑے دیکھ کر وجہ پوچھنے لگا۔ فیونا نے بتایا کہ دانی کا کہا ٹھیک تھا۔ جبران کا خیال فوری طور پر بھوت کی طرف چلا گیا، اس نے بھوت کا ذکر کیا تو فیونا نے اسے گھور کر کہا چپ رہا، یہ ڈریٹن کی حرکت ہو سکتی ہے۔ لیکن دانیال نے حیرت سے پوچھا کہ اتنی اونچائی پر دانیال کیسے کھڑکی تک پہنچ سکتا ہے۔ فیونا نے اسے یاد دلایا کہ وہ بھی قد بڑھا سکتا ہے، اور وہ ہمارے ساتھ کھیل رہا ہے۔ ایسے میں فیونا کو اچانک خیال سوجھا۔ اس نے جبران سے باتھ روم سے برف کے پانی والی بالٹی منگوا لی۔ وہ تیار کھڑے تھے، جیسے ہی شیشے پر کھرچنے کی آواز سنائی دی، دانیال نے کھڑکی کھول دی۔ وہاں واقعی ڈریٹن تھا، لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتا، جبران نے اس کے سر پر ٹھنڈے پانی کی بالٹی الٹ دی۔
انھیں ڈریٹن کی بے ساختہ چیخ سنائی دی۔ ٹھنڈا پانی اس کے چہرے پر پڑا تو وہ ایک دم حواس باختہ ہو گیا اور فوراً سکڑ کر اپنی اصلی حالت میں آ گیا۔ دانیال نے کھرکی پھر بند کر دی اور تینوں خوشی سے کمرے میں ناچنے لگے۔ ’’واؤ، ہم نے اس شیطان کو مزا چکھ ا دیا!‘‘ جبران اور فیونا قہقہے لگانے لگے۔ انھیں اطمینان ہوا کہ اب ڈریٹن انھیں پریشان کرنے کی مزید جرات نہیں کرے گا۔ کچھ دیر بعد وہ پھر بستروں میں گھس گئے۔ رات کے تین بج رہے تھے، کچھ ہی دیر میں تینوں نیند کی وادی میں گم ہو گئے۔
(جاری ہے)

Comments