بدھ, دسمبر 11, 2024
اشتہار

احتشام حسین: ممتاز نقّاد، شاعر اور ادیب

اشتہار

حیرت انگیز

احتشام حسین ہندوستان سے تعلق رکھنے والے ادیب، مارکسی نقاد، شاعر اور مترجم تھے۔ آج احتشام حسین کی برسی ہے۔ وہ یکم دسمبر 1972ء کو الہ آباد میں وفات پاگئے تھے۔

احتشام حسین 21 اپریل 1912ء کو اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے تھے۔ 1936ء میں الہ آباد سے ایم اے کیا اور لکھنؤ یونیورسٹی میں اردو کے لیکچرر ہوگئے۔ بعد میں الہ آباد یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھائیں۔ ان کا ادب سفر نظریاتی حوالے سے ترقی پسند تحریک سے جڑا رہا۔ ان کے تنقیدی مضامین اور تخلیقی کاموں پر مشتمل متعدد کتب اشاعت پذیر ہوئیں۔

اردو زبان و ادب کی اس ممتاز شخصیت کے فن اور ان کے نظریات پر اپنے وقت کے معروف ادیب، شاعر اور نقاد ڈاکٹر شارب ردولوی نے طویل  مضمون رقم کیا تھا جو نیا دور، لکھنؤ کے شمارے میں احتشام حسین کی وفات کے بعد شایع ہوا تھا۔ اس مضمون سے چند اقتباسات پیشِ خدمت ہیں۔ 

- Advertisement -

اردوتنقید کی اسی روایت کو جس کا پودا حالی نے لگایا تھا احتشام حسین نے آگے بڑھایا اور اسے ایک فن کی صورت دی۔

ادب کی تفہیم، پرکھ اور تنقید کے سلسلے میں جس نظریے نے سب سے زیادہ مقبولیت اور اعتبار حاصل کیا وہ ادب کا سماجی نظریہ تھا۔ اردو میں اس نطریے کو سب سے زیادہ تقویت احتشام حسین کی تحریروں سے ملی، انہوں نے پچھلے تیس سال میں اپنی نظریاتی تنقید اور عملی تنقید دونوں میں پورے خلوص کے ساتھ اس نظریے کو برتا ہے۔ ان کی تحریروں نے اردو ادب و تنقید کو اس طرح متاثر کیا ہے کہ ان کی شخصیت خود ایک مکتب فکر کی ہوگئی ہے۔

احتشام حسین اردو تنقید کا ذہن تھے۔ جو فکر اور فلسفیانہ گہرائی انہوں نے تنقید کو دی اس سے اردو تنقید کا دامن یکسر خالی تھا۔ انہوں نے اس کو فلسفیانہ فکر اور فن کی معراج پر پہنچایا۔ وہ اردو کے پہلے نقاد تھے جنہوں نے سماجی نقطہ نظر اردو میں سائنٹفک تنقید کی بنیاد رکھی اور سماجی نقطہ نظر کو انتہا پسندی اور افراط و تفریط کے الزام سے بچایا۔ وہ لوگ جو ادب کے سماجی نظریے کو نہیں مانتے وہ ہوسکتا ہے کہ ان کے بعض نظریات سے اختلاف کریں، لیکن جس طرح انہوں نے ادب کو ایک وسیع فنی، جمالیاتی اور سماجی پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کی ہے اس سے اختلاف کرنا مشکل ہے۔

احتشام حسین بنیادی طور پر سماجی نظریات کے ماننے والے ہیں اور ادب کو اس کے گرد و پیش اور ماحول کی پیداوار سمجھتے ہیں۔ ان کا یقین ہے کہ ادب میں حسن، دلکشی اور جاذبیت، اس کا تاثر اور قبول سب اسے سماج سے ملتا ہے۔ فن کار جس سماج میں رہتا ہے اسی سے اپنی تخلیق کا مواد حاصل کرتا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ "ادیب کے تخلیقی کارنامے ان حقیقتوں کا عکس ہوتے ہیں جو سماج میں پائی جاتی ہیں۔”

اس اقتباس سے ان کے ادبی نظریے کی بڑی حد تک وضاحت ہوجاتی ہے۔ ادب کے اس نظریے پر انہوں نے سائنٹفک تنقید کی بنیاد رکھی۔ اصول تنقید یا نظریاتی تنقید کے سلسلے میں ان کی کوئی مستقل تصنیف نہیں ہے۔ لیکن تنقیدی نظریات کو مرتب کرنے اور نظریاتی تنقید کا ایک راستہ بنانے کے سلسلے میں انہوں نے اتنے مضامین لکھے ہیں کہ اگر انہیں یکجا کردیاجائے تو کسی مبسوط تصنیف سے کہیں زیادہ اہم ہوں گے۔ ان کا تنقیدی نظریہ فلسفیانہ ہونے کے باجود بہت سلجھا ہوا ہے۔ احتشام حسین کی تنقیدوں میں شاعرانہ انداز بیان خوبصورت گڑھی ہوئی ترکیبیں، بے مقصد تراشے ہوئے جملے اور تشبیہ و استعارات کی زبان نہیں ملتی بلکہ سادگی ،وضاحت، قطعیت ، اور ایک جچا تلا طرز بیان ان کے اسلوب کی خصوصیت ہے۔ احتشام حسین سے پہلے تنقید تشریح، توضیح، موازنہ، فن کاری کا مطالعہ سب تھی۔ لیکن فلسفیانہ عمل نہ تھی۔ تنقید کو جس سنجیدگی ، توازن اور جس فلفسیانہ نقطہ نگاہ کی ضرور ت تھی، وہ اسے احتشام حسین ہی نے دیا جس کے بانی اور پیش رو سب ہی کچھ وہی تھے۔

اس میں شک نہیں کہ احتشام حسین نے اردو تنقید کو پہلی بار فلسفیانہ انداز نظر، سماجی بصیرت اور واضح انداز بیان دیا۔ ان کے اسلوب میں تازگی ، قطعیت صفائی اور تنقیدی جرات ہے۔ انہوں نے اپنے حکیمانہ انداز و فلسفیانہ ذہن، عملی گہرائی اور وضاحت سے اردو تنقید کو جمالیاتی ، نفسیاتی اور خالص فنی تشریح اور توضیح کے دائرے سے نکال کر سائنٹفک بنایا جس کے پیش نظر بجا طور پر انہیں اردو میں جدید سائنٹفک تنقید کا بانی اور صحت مند ادبی اقدار کا علمبردار کہہ سکتے ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں