منگل, اپریل 1, 2025
اشتہار

مغل بادشاہوں کی عید

اشتہار

حیرت انگیز

عیدالفطر پر مغل بادشاہوں کی تیاریاں کیا ہوتی تھیں اور دستر خوان کیسے چنا جاتا تھا، یہ سب ہمیں شاہی دربار سے وابستہ شخصیات اور مغلیہ خاندان کی تاریخ لکھنے والوں کی کتابوں میں پڑھنے کو ملتا ہے۔

’بزمِ آخر‘ ایسی ہی ایک کتاب ہے جس کے مصنّف منشی فیض الدین ہیں منشی فیض الدین نے آخری دو مغل بادشاہوں کا دور دیکھا اور قلعۂ معلیٰ میں وقت گزارا تھا۔ اس کتاب کے اوراق الٹیں‌ تو معلوم ہوتا ہے کہ عیدالفطر کے چاند کا اعلان توپ کے گولے داغ کر کیا جاتا تھا۔ تہوار کے دن کی تیاری کے لیے ’رات کو توپیں، ڈیرے خیمے، فرش فروش عید گاہ روانہ کردیے جاتے۔ سواری کا حکم دیا جاتا اور ہاتھی رنگے جاتے تھے۔

منشی فیض کے مطابق صبح کو بادشاہ حمام کے بعد پوشاک بدلتے۔ خاصے والیاں (بادشاہ کا کھانا پروسنے والی عورتیں) جلدی سے دسترخوان، سویاں دودھ، اولے، بتاشے، چھوارے، خشکا، کھڑی مسور کی دال لگا دیتیں۔ اور پھر بادشاہ نیاز دیتے۔ پھر وہ باہربرآمد ہوتے اور ہاتھی پر سوار ہوتے۔ قلعے کے دروازے پر 21 توپوں کی سلامی دی جاتی۔ بادشاہ اس طرح عید گاہ پہنچتے اور پھر پیدل عید گاہ کے اندر جاتے اور نماز ادا کرکے لوٹتے۔ منشی فیض لکھتے ہیں کہ بادشاہ محل میں داخل ہوئے۔ جسولنی نے آواز دی۔ ’خبردار ہو!‘ سب بیگمات سر و قد کھڑی ہو گئیں۔ مجرا (سلام ، کورنش) کیا۔ تخت پر سے تخت پوش خوجوں نے اٹھایا۔ کہاریوں نے ہوادار تخت کے برابر لگا دیا۔ بادشاہ تخت پر بیٹھے۔ خواجہ سرا مورچھل لے کر تخت کے برابر کھڑے ہو گئے۔ چاندی کے تخت پر بیٹھ کر محل کی نذریں لیں۔‘

’خاصے والیوں نے پہلے ایک سات گز لمبا، تین گز چکلا (چوڑا) چمڑا بچھایا، اوپر سفید دسترخوان بچھایا۔ بیچوں بیچ دو گز لمبی، ڈیڑھ گز چکلی، چھ گرہ اونچی چوکی لگا، اس پر بھی پہلے چمڑا پھر دسترخوان بچھا، خاص خوراک کے خوان مہر لگے ہوئے چوکی پر لگا، خاصے کی داروغہ سامنے ہو بیٹھی۔ لو اب کھانا چُنا جاتا ہے۔‘

منشی صاحب کی کتاب کے ایک مؤلف اس کی تفصیل کو یوں اختصار سے لکھتے ہیں‌ کہ چھبیس طرح کی روٹیاں، چوبیس قسم کے پلاؤ، پھر سویاں، من و سلویٰ، فرنی کے علاوہ کئی قسم کی کھیریں، طرح طرح کے قورمے، رنگ برنگ کے کباب، بھرتے، حلوے، مربے، اچار، مٹھائی کے رنگترے، شریفے، امرود، جامنیں، انار وغیرہ۔ علاوہ ازیں کئی قسم کے حلوا سوہن، اور لاتعداد قسم کی مٹھائیاں مختلف رکابیوں، پلیٹوں اور طشتریوں میں سجی۔

مغل سلطنت کے مشہور شہنشاہ اکبر نے 1556 سے 1605 تک حکمرانی کی۔ مؤرخ ابوالفضل کے مطابق اکبر عید کی نماز کے بعد غریبوں میں خیرات تقسیم کرتے۔ اس کے بعد محل میں عظیم الشان دعوت ہوتی۔ مغل شاہی خواتین نئے کپڑے سلواتیں، ہاتھوں پر مہندی لگواتیں اور خود کو زیورات سے آراستہ کرتیں۔ اسی طرح‌ شہنشاہ جہانگیر جنھوں نے 1605 سے 1627 تک حکومت کی جب 1613 میں عید الفطر آئی تو اس دعوت میں مختلف قسم کے پکوان، بھنا ہوا میمنا، بھرے تیتر اور مٹھائیاں شامل تھے۔ اس موقع پر جہانگیر کے مشہور درباری مرزا غیاث بیگ نے انھیں ایک انوکھی ڈش پیش کی۔ اس کا نام ’خشک کوفتہ‘ تھا۔ یہ ڈش خشک آموں سے تیار کی گئی تھی اور اس کا مقصد شہنشاہ کی گوشت کے پکوانوں سے محبت پر ایک مذاق تھا تاہم جہانگیر نے اس پر بھی ان کی ذہانت اور شگفتہ مزاجی کی تعریف کی۔ مؤرخ بداونی کے مطابق عید کے دن نور جہاں غریبوں اور ضرورت مندوں میں بڑی تعداد میں رقم، کپڑے، کھانا اور مٹھائیاں تقسیم کرتی تھیں۔

شاہ جہاں نے 1628 سے 1658 تک ہندوستان پر حکومت کی۔ وہ عید الفطر پر شان دار تقریبات کا اہتمام کرنے کے لیے مشہور تھے۔ مؤرخ محمد صالح کمبوہ کے مطابق محل میں دعوت کئی دن تک جاری رہتی۔ شاہ جہاں عید کے دن اپنے بہترین لباس زیب تن کرتے تھے۔ ملکہ ممتاز محل بھی عید جیسے خاص مواقع پر بہترین ریشم اور سونے کے دھاگے والے لباس پہنتی تھیں۔ مؤرخ عبدالحمید لاہوری بھی لکھتے ہیں کہ شاہ جہاں کے دور میں عید کی تقریبات کے لیے دلی کی سڑکوں کو پھولوں اور روشنیوں سے سجایا جاتا تھا۔ شہنشاہ قیدیوں کی رہائی کا حکم بھی دیتے اور رحم اور شفقت کے اظہار کے طور پر سزائے موت پانے والوں کو معاف کر دیتے۔ وہ یہ بھی لکھتے ہیں‌ کہ شاہجہاں عید کی تقریبات میں ہاتھیوں کی لڑائی اور دیگر تماشے دیکھ کر لطف اندوز ہوتے تھے۔ عید کے موقع پر کھیلا جانے والا ایک مقبول کھیل چوپڑ یا پچیسی تھا، جو جدید دور کے لڈو جیسا ہی بورڈ گیم ہے۔

عالمگیر کے بعد مغل خاندان میں دس حکم راں گزرے۔ مگر آخری تاجدار کے عہد میں شاہی خاندان کی شان و شوکت باقی نہ رہی تھی اور اس کی بہت سی روایتیں باقی تھیں جن کے مطابق دربار میں عید روایتی طور پر منائی جاتی رہی۔

دلّی کے اخبار احسن الاخبار میں بہادر شاہ ظفر کے زمانے کی ایک عید کا احوال یوں لکھا گیا کہ’بادشاہ ہفتے کے دن شوال کی پہلی تاریخ کو قلعے سے باہر تشریف لائے اور عید کی نماز پڑھنے عید گاہ تشریف لے گئے۔ نماز جماعت کے ساتھ ادا کی اور حسبِ معمول نیاز کی تقسیم کے بعد واپس قلعۂ معلیٰ میں آئے۔ آتے جاتے وقت حسبِ ضابطہ شاہی انگریزی توپ خانوں سے سلامی کی توپیں چلائی گئیں۔ شام کے وقت تخت ہوا دار پر سوار ہو کر باغ میں رونق افروز ہوئے۔ محفل رقص و سرود منعقد ہوئی۔ اس کے بعد محل میں جا کر آرام فرمایا۔ ‘

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں