کیلی فورنیا: امریکی یونیورسٹی کے ماہرین فلکیات نے بلیک ہول سے پُراسرار روشنی کا اخراج دیکھنے کا دعویٰ کیا، جس کے بعد ماہرِ طبیعات البرٹ آئن سٹائن کے نظریے کے حوالے سے نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
یاد رہے کہ البرٹ آئن سٹائن نے 100 برس قبل اپنے عمومی نظریہ اضافیت میں پیش گوئی کی تھی کہ ستاروں کی روشنی انتہائی تجاذبی قوت کی موجودگی میں زیادہ طول موج کی حامل ہو جاتی ہے اور زیادہ سرخ دکھائی دیتی ہے۔ اسے طبیعیات کی زبان میں ’گریویٹیشنل ریڈ شفٹ‘ بھی کہا جاتا ہے۔
اب اسٹینفورڈ اور کاؤلی انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین نے دعویٰ کیا کہ اُن کی ایک ٹیم نے بلیک ہول کی پشت سے خارج ہونے والی پُراسرار روشنی کا اخراج دیکھا۔
ماہرین نے دعویٰ کیا کہ یہ انسانی تاریخ میں اپنی نوعیت کا انتہائی اہم مشاہدہ ہے، جسے پہلی بار کیا گیا۔
اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈین ولکنز نے بتایا کہ ’ہماری ٹیم نے زمین سے 800 لاکھ نوری سال کے فاصلے پر موجود بلیک ہول کے گرد ایکسرے سے مختلف رنگوں کی شعاعوں کا اخراج دیکھا، جسے فلکیاتی زبان میں ایکوز بھی کہا جاتا ہے‘۔
پروفیسر ڈین نے بتایا کہ یہ بلیک ہول ستاروں کی جھرمٹ یا کہکشاں کے مرکز میں واقع ہے۔ ماہرین نے اس تحقیق کی چند ایک تصاویر بھی جاری کیں ہیں، جو مختلف رنگوں سے مزین ہیں۔
مزید پڑھیں: بلیک ہول کے پراسرار راز کو کیسے سمجھا جاسکا؟
یہ بھی پڑھیں: بلیک ہول نے ستارے کو اچانک اپنے اندر کھینچ لیا
اسے بھی پڑھیں: روزانہ سورج سے زیادہ پھیلنے والا نیا بلیک ہول دریافت
اسٹینفورڈ کی تحقیقی ٹیم نے بتایا کہ انہوں نے بلیک ہول کی پشت سے مختلف رنگوں والی روشنی دیکھی، جو بالکل واضح تھی۔ ماہرین فلکیات نے خیال ظاہر کیا کہ یہ یا کسی بھی قسم کی کوئی روشنی بلیک ہول میں داخل نہیں ہوتی، اسی باعث بلیک ہول کے پیچھے کے مناظر نظر نہیں آسکتے۔
تحقیقی ٹیم نے بتایا کہ بلیک ہول سے خارج ہونے والی شعاعوں کے مشاہدے کے بعد بہت سارے سوالات کھڑے ہوگئے ہیں، جن پر ماہرین غور و فکر کررہے ہیں۔