ضلع جامشورو پچیس سو سال پرانی تاریخ کا حامل ہے جس کی قومی اسمبلی (نیشنل اسمبلی) کی ایک نشست ہے لیکن ملک بھر کی طرح حلقہ NA-226 جو پہلے NA-233 کہلاتا تھا، بھی عوامی مسائل سے گھرا ہوا ہے، اس حلقے میں ووٹرز کا جھکاؤ ہمیشہ سے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز (PPPP) کی طرف زیادہ دیکھا گیا ہے لیکن عوامی مسائل پہلے سے زیادہ ہو چکے ہیں۔
این اے 226 میں کل ووٹرز کی تعداد
این اے 226 ضلع جامشورو کی کل آبادی 11 لاکھ 17 ہزار 308 ہے جس میں سے صرف 4 لاکھ 77 ہزار 60 افراد ہی الیکشن کمیشن سے رجسٹرڈ ہیں، اس حلقے میں مرد ووٹرز کی تعداد دو لاکھ 88 ہزار 34 ہے جبکہ خواتین ووٹرز 2 لاکھ 18 ہزار 228 ہیں۔
ضلع جامشورو انتظامی لحاظ سے چار تحصیلوں (تعلقوں) میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں تحصیل کوٹری ، تحصیل مانجھنڈ، تحیصل سیہون، تحصیل تھانہ بولا خان شامل ہیں۔
2018 میں کامیاب ہونے والے امیدوار
این اے 233، جو کہ آج کا حلقہ 226 ہے، 2018 کے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے سکندر علی راھپوٹو منتخب ہوئے تھے جنہو ں نے 1,33,492 ووٹ لیکر جی ایم سید کے پوتے سید جلال شاہ جن کا تعلق سندھ یونائٹیڈ پارٹی سے ہے شکست دی تھی۔
سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے جی ایم سید کے پوتے سید جلال شاہ صرف 4,198 ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر رہے تھے۔
2013 میں بھی اس حلقے سے پی پی نے میدان مارا
2013 کے الیکشن میں بھی اس حلقے سے پیپلز پارٹی نے ہی میدان مارا تھا، اور پی پی کے عمران ظفر لغاری نے 1,08,110 ووٹ حاصل کیے تھے۔
حلقے کے عوام کے مسائل
این اے 226 کے عوام بھی کئی مسائل کا شکار ہیں، اس حلقے کے زیادہ تر مکین غربت و افلاس کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جو کہ پینے کا صاف پانی، بجلی، گیس اور دیگر بنیادی سہولیات تک سے محروم ہیں۔
سندھ بھر کی طرح اس حلقے میں بھی ’بے نظیر انکم سپورٹ‘ پروگرام (BISP) کا سلسلہ جاری ہے لیکن برسوں سے اس حلقے میں حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی کے نامزد امیدواروں نے آج تک کوئی ایسا نظام قائم نہیں کیا جس سے لوگوں کو مستقل مزاجی کے ساتھ روزگار مل سکے۔
حلقہ 226 کے اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ صحت کا بھی ہے، جہاں لاکھوں ووٹرز کی آبادی کے حامل اس ضلع میں دور دور تک جدید الات سے لیس سرکاری اسپتال موجود نہیں، یہاں کی عوام ایمرجنسی کی صورت میں تقریباً آدھے آدھے گھنٹے کا سفر طے کرکے اسپتال پہنچتی ہے دوسری جانب سڑکوں کا بھی کوئی اتنا اچھا حال نہیں جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جبکہ جس کے ساتھ ساتھ سیوریج کا نظام بھی درہم برہم ہے۔
اس حلقے میں نوجوان نسل کے مستقبل کی بات کی جائے تو گورنمنٹ اسکولوں کی حالت بدتر ہے کئی اسکول بند جبکہ دیگر میں اساتذہ موجود ہی نہیں ہوتے، جامشورو میں تین جامعہ (Universities) ہیں جن میں، یونیورسٹی آف سندھ ، مہران یونیورسٹی اور لیاقت یونیورسٹی جامشورو شامل ہیں جبکہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ جامشورو کا دفتر اور انسٹی ٹیوٹ آف سندھولوجی بھی یہیں موجود ہے۔
یونیورسٹی اف سندھ، سندھ کی سرکاری یونیورسٹی ہے اس یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر کے نکلنے والے کئی طلباء و طالبات آج ملک بھر میں بڑی پوسٹ پر موجود ہیں لیکن اس یونیورسٹی کی حالت بھی کچھ بہتر نہیں، طالب علم کو پڑھانے کے لیے اساتذہ تو موجود ہیں لیکن اس جدید دور کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے کوئی بہترین سہولیات موجود نہیں۔
مزید یہ کہ یہاں کئی علاقوں میں کوئی ڈیجیٹل یا عام کوچنگ سینٹرز بھی موجود نہیں، حلقے کے نوجوان اور بچے کوچنگ کے لیے ہزاروں روپے فیس دے کر دوسرے شہر میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
حلقہ 226 میں برسوں سے انٹر سٹی ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام نہیں ہے جبکہ ملک بھر کی طرح اس حلقے میں بھی ڈکیتی کے کئی واقعات رپورٹ ہوتے رہے ہیں لیکن آج تک قانونی ادارے مکمل طور پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔
یوں تو اس حلقے میں منچھر جھیل،کوٹری بیراج، کیرسر پہاڑی علاقہ، قلعہ رنی کوٹ، سندھ میوزیم، دراوڑ کا قلعہ، لال شہباز قلندرؒ کا مزار (سیہون شریف) جیسے کئی تاریخی جگہ موجود ہیں لیکن آج کی نسل کے لیے پارک اور بہترین میدان موجود ہی نہیں، جو ہے وہ بھی گندے پانی کے تالاب کا منظر پیش کر رہے ہیں۔
این اے 226 سے کس جماعت نے کس امیدوار کو میدان میں اتارا ہے؟
پیپلزپارٹی نے عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے اپنے جانے مانے نمائندے ملک اسد سکندر کو چنا ہے، دوسری جانب گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے سید منیر حیدر شاہ اس حلقے سے الیکشن لڑیں گے اور تحریک لبیک پاکستان سے عبداللہ جامرو جبکہ آزاد امیداور میں عبدالحکیم چانڈیو شامل ہیں۔
سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ حاصل کرنے کے لیے عوام کے پاس جاتے وقت ان مسائل کا سامنا ضرور کرنا پڑے گا کیونکہ عوام اپنے مسائل حل کرنے والے امیدواروں کو ہی الیکشن میں کامیاب کروائیں گے۔
عوام بھی 8 فروری 2024 ء کو ہونے والے عام انتخابات کے دن اپنے ووٹ کی طاقت کا صحیح استعمال کریں، جھوٹے اور کھوکھلے نعروں کے فریب کا شکار نہ ہوں، صرف اہل اور حقیقی خیر خواہ امیدوار کے حق میں ووٹ دیں۔
علاقے میں ووٹ مانگنے کے لیے آنے والے امیدواروں کے ساتھ تصاویر لینے کے بجائے ان سے سوال کریں انہوں نے ان کئی سال سے آپ کے لیے کیا کیا؟ انہوں نے آپ کے مستقبل کے لیے کونسا پلان تیار کیا، اگلے 5 سال تک وہ آپ کے لیے کیا کریں گے؟ 5 سال تک آپ کے علاقے کو بہتر بنانے کے لیے کیا کریں گے؟
عوام ذرا سوچیں کے ہم کہاں کھڑے ہیں اور اس کی وجہ کیا ہے؟ صرف ہاتھ ملانے خیریت پوچھنے پر ضمیر فروخت مت کریں ووٹ امانت ہے اور امانت کے بارے میں یقینا پوچھا جائے گا اس لیے سوچ سمجھ کر اپنے بچوں کی خاطر، اپنی آنے والی نسلوں کی خاطر ووٹ دیں۔