کراچی میں 8 فروری کو انتخابات میں قومی اسمبلی کی 22 نشستوں پر 584 اور سندھ اسمبلی کی 47 نشستوں پر 1 ہزار 453 امیدوار الیکشن لڑیں گے۔
2024 کے انتخابات میں کراچی میں قومی اسمبلی کی 22 اور صوبائی اسمبلی کی 47 سیٹوں پر مختلف سیاسی جماعتوں کے امیدوار مدمقابل ہوں گے، سب سے زیادہ امیدوار پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور تحریک لبیک پاکستان کے ہیں، ان تینوں جماعتوں نے کراچی میں قومی اسمبلی کی ہر نشست پر اپنا امیدوار نامزد کر رکھا ہے۔
شہر کراچی سیاسی جماعتوں کے لیے اتنی اہمیت کا کیوں حامل ہے؟ ہر سیاسی جماعت اس شہر پر کیوں اپنا تسلط چاہتی ہے؟ کراچی پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ شہر قانونی اور غیر قانونی آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے، جس کو حاصل کرنا ہر سیاسی جماعت اپنا بنیادی حق سمجھتی ہے۔
اس شہر کا ایک اور بہت بڑا مسئلہ لسانی بنیاد پر ووٹوں کی تقسیم ہے جو انتخابات میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ 2023 کی مردم شماری کے نتیجے میں انتخابی حلقوں میں رد و بدل سے نہ صرف کراچی کی سیٹوں میں اضافہ ہوا بلکہ انتخابات کے نتائج بھی حیران کن ہو سکتے ہیں۔
یہ شہر پاکستان کے قیام کی ابتدائی دہایوں میں اس قدر گھمبیر مسائل سے دوچار نہ تھا، مگر مفادات کے ٹکراؤ نے اس شہر کو نہ ختم ہونے والے مسائل کا منبع بنا دیا ہے۔ 2024 کے انتخابات میں چار جماعتیں شہر کی سیاست میں فعال دکھائی دے رہی ہیں، مگر اصل مقابلہ عرصہ دراز سے کراچی کی ملکیت کے دعوے دار تین جماعتوں کے درمیان ہی ہوگا۔
پاکستان خصوصاً کراچی میں وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی ماحول میں غیر سیاسی عمل دخل میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اس لیے آنے والے انتخابات میں کسی بھی سیاسی جماعت کی مکمل فتح کی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی،
یہ شہر سیاسی، لسانی، سماجی اور مذہبی قوتوں کی بنا پر کئی حصوں میں بٹ چکا ہے۔ پاکستان میں مذہب کارڈ ہمیشہ سے ایک نعرہ رہا، مگر پاکستان میں دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں میدان میں کامیاب رہیں۔ مذہبی جماعتوں کا انتخابات میں کامیابی نہ ہونے کے برابر رہی۔ تاہم ضیا الحق کے بعد مذہبی جماعتوں کے ووٹ بینک میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آتا رہا اور اب پورے ملک کی طرح کراچی میں بھی مذہبی جماعتوں کا اثر و رسوخ اپنی جگہ بنا رہا ہے۔
کراچی کے مشہور ترین حلقوں میں سے ایک حلقہ لیاری کا ہے۔ لیاری کا علاقہ ہمیشہ آزاد خیال سیاسی لوگوں کا مسکن رہا مگر اب یہاں پر بھی مذہب کارڈ اپنا اثر دکھا رہا ہے۔ لیاری سے قومی اسمبلی کی نشست پر جہاں کبھی پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور پھر ان کی صاحب زادی بے نظیر بھٹو انتخابات میں حصہ لیا کرتی تھیں، اب وہاں ایک مذہبی جماعت نے پچھلے انتخابات میں دوسری پوزیشن لی تھی۔ 2018 میں بلاول بھٹو کی شکست کے بعد بھٹو خاندان نے لیاری کی انتخابی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے اور انتخابی ڈور پیپلز پارٹی کی نچلی قیادت کے حوالے کر دی گئی ہے۔