پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف لیول معاہدہ طے پا گیا ہے، جس کے تحت ایک ارب ڈالر کی قسط ادا کی جائے گی، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بجلی کتنی سستی ہوسکے گی؟۔
اس حوالے سے آے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں ماہر معاشیات احمد چنائے نے کہا کہ وزیر اعظم نے تاجر برادری سے کہا تھا کہ 23مارچ کو آپ خوشخبری سنیں گے کہ بجلی کی قیمت 8 سے دس روپے کم ہوگی لیکن اس کا کہیں نام و نشان کہیں نظر نہیں آرہا۔
انہوں نے کہا کہ آئی پی پیز کی بات کی جائے تو وہ مسئلہ بھی جوں کا توں ہے حکومت کو کوئی فائدہ مل گیا ہو تو علیحدہ بات ہے لیکن کیپسٹی چارجز وہیں کے وہیں ہیں نہ بجلی سستی ہوئی اور نہ ہی بلوں پر بھی اس کا کوئی فرق پڑا۔
احمد چنائے کا کہنا تھا کہ بجلی کتنی سستی ہوگی اس حوالے سے جلد از جلد کوئی فیصلہ کیا جائے تاکہ صنعتوں کا پہیہ تیزی سے چلنا شروع ہوجائے کیونکہ جب تک انڈسٹریز نہیں چلیں گی تو ٹیکسز کا ہدف کیسے پورا ہوگا؟
بجلی کتنی سستی ہوگی؟ سے متعلق سوال کے جواب میں ماہر معاشی امور شہباز رانا نے کہا کہ جہاں تک بجلی سستی کرنے کی بات ہے تو آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ صرف ایک روپیہ فی یونٹ کمی کی بات ہوئی ہے، اس سے زیادہ نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کوئی ریلیف پیکج دینا چاہ رہے ہیں تو اس سلسے آئی ایم ایف فی الحال کوئی تعاون نہیں کررہا۔ اس کا کہنا ہے کہ جو چیز ابھی تک نیپرا نے منظور نہیں کی تو اس کو کیسے لاگو کیا جاسکتا ہے؟
یاد رہے کہ آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ طے پانے کے بعد وزارت خزانہ نے اعلامیہ جاری کیا تھا جس میں بتایا گیا کہ پاکستان کو موجودہ قرض پروگرام کی ایک ارب ڈالر کی قسط ملنے کا معاہدہ طے پایا ہے، ایک ارب ڈالر قرض کی منظوری آئی ایم ایف بورڈ سے ملے گی۔
وزارت خزانہ کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کیلئے 1.3 ارب ڈالر کی فنڈنگ پر بھی معاہدہ ہوگیا، پاکستان نے معاشی اصلاحات میں خاطر خواہ کارکردگی دکھائی اور ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔