کیا آپ جانتے ہیں کہ سندھ کے شہر حیدرآباد میں آج آٹھ محرم کو ایک ایسا جلوسِ تعزیہ برآمد ہوتا ہے جس کی بنیاد’ایلی کاٹ ‘نامی ایک نو مسلم انگریز نے رکھی تھی۔
معروف محقق عقیل عباس جعفری کے مطابق ایلی کاٹ ایک ’انگریز ‘ تھے اور وہ ہر سال محرم الحرام میں سیاہ کپڑے زیب تن کئے عزا داری میں پیش پیش نظر آتے تھے۔ بیلے ڈانس کے دلدادہ ایلی کاٹ اپنے ڈرائیور کی زبانی واقع کربلا سن کر ایسے مسلمان ہوئے کہ انہوں نے گھر بار بیوی بچے سب کچھ چھوڑ دیا اور مرتے دم تک ’غم ِحسینؑ‘ کو سینے سے لگائے رکھا۔
چارلی ایلی کاٹ عرف علی گوھر کا جنم کہاں ہوا اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے تاہم انہیں ایلی کاٹ سے علی گوہر بنے آج ستر سال سے زائد عرصہ بیت چکا ہے ۔ ان کی والدہ لیڈی ڈفرن ہسپتال حیدرآباد میں ڈاکٹر تھیں اور والد فاریسٹ آفیسر تھے‘ جو کہ ہمیشہ شکار میں مصروف رہتے تھے۔چارلی کی ماں کا تعلق کلکتہ سے تھا اور وہ بھی انگریز تھیں۔
چارلی کی والدہ حیدرآباد کے ہر ماتمی جلوس پر نذر و نیاز کرتیں تھیں۔ چارلی اپنی والدہ سے بہت متاثر تھے۔ وہ خود محکمہ ایکسائز میں انسپکٹر تھے۔ عبدالغفور چانڈیو جو ان کا ڈرائیور تھا۔ اُس سے ’امام علی ؑاور امام حسینؑ‘ کی شہادت اور ان کی زندگی کے بارے میں سن کر ایلی کاٹ کو بھی حسینی قافلے میں شامل ہونے کا شوق ہوا۔
عبدالغفور کے بیٹے غلام قادرچانڈیو بتاتے ہیں کے ایلی کاٹ نے ان کے والد عبدالغفور سے کہا کہ وہ بھی ماتمی جلوس نکالنا چاہتے ہیں‘ ان کی خواہش کے بموجب حیدرآباد کے پکے قلعہ میں چانڈیوں کی امام بارگاہ سے پہلی بار ذوالجناح کا جلوس نکالنے کی تیاری کی گئی۔
یکم محرم الحرام کو جب یہ جلوس روانگی کے لئے تیار تھا تو عجیب اتفاق ہوا کہ چارلی کی والدہ انتقال کر گئیں۔ غلام قادر کے مطابق ایلی کاٹ نے صبح کو والدہ کی حیدرآباد کے شمال میں واقع’ گورا قبرستان ‘میں تدفین کی اور شام کو اپنے غم کو بھول کر اور سیاہ کپڑے پہن کر ننگے پاؤں ماتم میں شامل ہوگیا۔
غلام قادر جو ایلی کاٹ کے ساتھی رہے ہیں‘ بتاتے ہیں کہ ایلی کاٹ نے اپنی انگریز بیوی کو بتایا کہ وہ مسلمان ہونا چاہتے ہیں۔ اس لئے ان کے سامنے دو راستے ہیں، پہلا یہ کہ وہ بھی مسلمان ہو جائے اور دوسرا یہ کہ واپس انگلینڈ چلی جائیں۔ ان کی بیوی نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور وہ دو بیٹیوں سمیت انگلینڈ چلی گئیں۔ جہاں سے وہ کبھی بھی چارلی کے لئے لوٹ کر نہیں آئیں۔
چارلی اب علی گوھر بن چکے تھے۔ قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل وہ اجمیر شریف میں خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر چلےگئے جہاں انہوں نے چھ ماہ تک ملنگوں والی زندگی گزاری۔ چھ ماہ بعد حیدرآباد لوٹ آئے اور بقیہ تمام زندگی اپنے ڈرائیور عبدالغفور کے پاس رہ کر گزار دی۔
چار ربیع الاول بمطابق17اپریل 1971ء کو چارلی عرف ایلی کاٹ انتقال کر گئے اور انہیں اسی ماتمی گنبد میں دفن کر دیا گیا جہاں وہ رہتے تھے۔