نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
جونی نے کہا: ’’جب وہ وقت آئے گا تو دیکھیں گے۔‘‘ دونوں زر و جواہر کے درمیان قدیم کتاب ڈھونڈنے لگے، جونی نے کئی دیدہ زیب اور قیمتی زیور اٹھا کر پینٹ کی جیب میں رکھے تو جیک کی توجہ پینٹ کی طرف چلی گئی۔ اس نے کہا: ’’جدید دور کا یہ لباس بھی کتنا عجیب ہے، مجھے تو بڑا عجیب محسوس ہوتا ہے اس میں۔‘‘
جونی ہنس پڑا اور کہا کہ اسے یہ لباس بہت پسند آیا ہے۔ تقریباً ایک گھنٹے کی تلاش کے بعد جب وہ تھک چکے تھے، انھیں آخر کار کتاب مل گئی۔ جونی نے کہا ہمیں اسے ڈریٹن سے دور رکھنا ہوگی، اس کا ایک بھی لفظ اس کے کانوں میں نہیں پڑنا چاہیے۔ وہ دونوں محتاط ہو کر خفیہ دروازے بند کرتے ہوئے باہر نکل آئے۔ جیک نے کہا کہ وہ اوپر مرکزی ہال میں شیشے کی منقش کھڑکیوں کو دیکھنا چاہتا ہے۔ دونوں سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ ڈریٹن ابھی ہال سے نکلنے کے لیے مڑ ہی رہا تھا کہ اسے سیڑھیوں کی طرف سے قدموں کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ سیڑھیوں کی طرف مڑ کر چلایا: ’’پہلان … یہ تم ہو؟‘‘
جیک اور جونی ایک دم رک گئے۔ جونی سرگوشی میں بولا: ’’میرا خیال ہے یہ ڈریٹن ہے، میں اس سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
وہ دونوں اوپر کی طرف دوڑے۔ اس دوران ڈریٹن نے پھر پکارا … پہلان … لیکن اسے دوڑتے قدموں کی آواز سنائی دینے لگی۔ اسے فوراً خطرہ محسوس ہوا، وہ کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر قلعے کے باہر کی طرف دوڑ پڑا تاکہ کہیں چھپ سکے۔ وہ دونوں جب اوپر ہال میں آئے تو ڈریٹن نہیں تھا۔
’’بزدل پھر بھاگ گیا۔‘‘ جونی جھنجھلا کر بولا۔ ’’میں اسے ڈھونڈنے باہر جا رہا ہوں، تم یہاں رک کر منقش شیشے والی کھڑکی دیکھو، ہاں یہ کتاب اپنے پاس رکھو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ باہر کی طرف دوڑا اور جیک کو قلعے کے اندر اکیلا چھوڑ دیا۔
ڈریٹن چھپ کر دیکھ رہا تھا، جب اس نے جونی کو باہر نکلتے دیکھا تو جھلا کر بڑبڑایا: ’’یہ پھر وہی آدمی آ گیا ہے، آخر یہ ہے کون؟ میں ایک بار پھر اپنا قد بڑا کر کے اسے قدموں سے کچل دوں گا۔‘‘
وہ پہاڑیوں اور مجسموں کے پیچھے چھپا ہوا تھا، اور بار بار اپنی جگہ بدل کر جونی پر نظر رکھ رہا تھا۔ ایک موقع پر جونی اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو گیا، تب اس کی نظر سدا بہار صنوبری درخت ئیو کی باڑ پر پڑی۔ ’’ارے واہ، یہ تو بھول بھلیاں ہیں، شان دار۔‘‘ وہ خوش ہو کر دوڑتا ہوا اس میں داخل ہو گیا اور ایک کے بعد ایک موڑ مڑ کر دائروں میں گھومنے لگا، یہاں تک کہ وہ بھول بھلیوں کے وسط میں پہنچ گیا۔ اس کے سامنے ایک مجسمہ کھڑا تھا، جس کے قریب جا کر اس نے تختی پڑھی، لکھا تھا … کنگ رالفن، کنگ کیگان کے جدِّ امجد۔ ڈریٹن بڑبڑانے لگا: ’’تو یہ تم ہو بوڑھے بادشاہ، تم سے تو میں زیادہ خوب صورت لگ رہا ہوں، ہونہہ …‘‘
یکایک اس کے کان کھڑے ہو گئے، شاخیں ٹوٹنے کی آوازیں سنائی دی تھیں۔ اس نے باڑ سے ادھر ادھر جونی کو ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ تب وہ تیزی سے مڑا اور مجسمے کے سامنے موجود کنوئیں کے اوپر رکھے ٹوٹے تختوں پر بغیر دیکھے پاؤں رکھ دیے۔ اگلے لمحے اس کے منھ سے ایک خوف زدہ چیخ نکلی اور اس نے خود کو ایک اندھے کنوئیں میں گرتے پایا۔ کنوئیں کی پتھریلی دیواروں سے اس کے کندھے چھل گئے اور سر زخمی ہوا۔ آخر کار ایک زبردست دھپ کے ساتھ وہ ایک سرنگ کی تہہ میں گر پڑا اور پھر اسے کوئی ہوش نہ رہا۔
دوسری طرف جونی نے اسے بہت تلاش کیا لیکن وہ اس کے ہاتھ نہ آ سکا، چناں چہ تھک ہار کر واپس ہال میں پہنچ گیا جہاں جیک ابھی تک اس منقش شیشے والی کھڑکی کو تک رہا تھا، جونی کی سماعت سے اس کی آواز ٹکرائی: ’’تو یہ ہیں بادشاہ کے بچے۔‘‘
جونی چونک اٹھا۔ جیک رو رہا تھا اور کہتا جا رہا تھا: ’’کیگان کو دیکھو، کتنا خوش نظر آ رہا ہے اور ملکہ تو ہمیشہ کی طرح بے حد خوب صورت ہے۔‘‘
جونی نے اپنے دوست کے کندھے تھپتھپائے اور کہا: ’’چلو، یہ کتاب اینگس تک پہنچائیں۔‘‘
ایک درخت کے ساتھ بندھی ہوئی کشتی انھیں مل گئی۔ جیک نے پائن کے سوکھے درختوں پر نظر ڈالی لیکن زبان سے کچھ نہ کہا۔ جونی بڑبڑایا، اچھا ہوا یہ کشتی ہمیں مل گئی، ڈریٹن اب جھیل تیر کر پار کرے گا۔
کچھ دیر بعد دونوں دوسری طرف پہنچ گئے۔ جیک نے کشتی کھینچ کر ایک سدا بہار جھاڑی کَنِیر کے پیچھے اسے چھپا دیا اور دونوں گھر کی طرف تیز قدموں سے چلنے لگے۔ ڈریٹن غار کے اندر زخمی حالت میں بے ہوش پڑا رہا۔