کلاسیکی ادب میں بین الاقوامی سطح پر توجہ حاصل کرنے والے ناولوں میں ایک ناول ’جین آئر‘ بھی ہے۔ یہ ناول نگار اور شاعر شارلٹ برانٹے کی تصنیف ہے لیکن انھوں نے اسے ایک قلمی نام سے شایع کروایا تھا۔ شارلٹ برانٹے 1855 میں چل بسی تھیں۔ اس انگریز مصنف کے والد پادری تھے۔ جین آئر نے شارلٹ برانٹے کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اس ناول کا متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جن میں اردو بھی شامل ہے۔
شارلٹ برانٹے ایک حقیقت نگار تھیں اور اپنی کہانیوں میں انیسویں صدی کے انگلستانی معاشرے کی زبردست عکاسی کی ہے۔ شارلٹ برانٹے نے اپنا ناول جین آئر پہلی بار 1847ء میں اصل نام کے بجائے ’کربیل‘ کے قلمی نام سے لندن سے شائع کروایا تھا۔ یہ ایک سوانحی ناول ہے۔ اس کی کہانی ایک ایسی نوجوان لڑکی کی زندگی کی داستان ہے جو نڈر اور بے خوف ہے اور اپنے حالات بدلنے کی کوشش میں مصروف ہے۔
اس ناول کا اردو ترجمہ سیف الدّین حسام نے بھی کیا جو اردو کے ایک ادیب اور بہترین مترجم تھے لیکن ان کی ایک وجہِ شہرت دست شناسی بھی رہی ہے۔ سیف الدّین حسام کا تعلق لدھیانہ، مشرقی پنجاب سے تھا جو تقسیم کے بعد جہلم آگیا۔ انھوں نے 1949ء میں گورڈن کالج راولپنڈی سے ایف ایس سی کیا۔ مالی مشکلات ایسی تھیں کہ مزید تعلیم حاصل نہ کر سکے اور جہلم واپس لوٹ آئے۔ کچھ عرصہ والد کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹایا۔ چند برس کھیوڑہ میں نمک کی کان میں کام کیا اور کچھ ہاتھ سیدھا ہوا تو دوبارہ پڑھائی کا سلسلہ شروع کیا۔ 1958ء میں بی اے آنرز کی تیاری کی اور یونیورسٹی بھر میں اوّل آئے۔ ایم اے اُردو اور ایم اے انگریزی بھی کیا۔ ماہ و انجم میں دل چسپی اور دست شناسی کا شوق نجانے کب پیدا ہوا اور پھر رفتہ رفتہ جنون کی حد تک بڑھ گیا۔ دست شناسی پر کئی مضامین لکھے اور یہ مضامین ’’ہتھیلی کی زبان‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوئے۔ بچّوں کے لیے کئی غیرملکی ادیبوں کی کہانیوں کے تراجم کیے اور خود بھی کہانیاں لکھتے رہے۔ 4 مارچ 1995ء کو سیف الدّین حسام وفات پاگئے تھے۔