گزشتہ 16 برسوں میں صوبہ سندھ میں ماحولیات کے بجٹ کا صرف 40 فی صد خرچ ہو سکا ہے، پاکستان بھر میں ماحولیات کی بہتری کے لیے یہ شرح سب سے کم ہے۔ جب کہ پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کے حوالے سندھ سب سے زیادہ متاثر کن صوبہ ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق سندھ میں ماحولیاتی تبدیلی پر کام کرنے والے 7 صوبائی محکموں کے لیے 2007 سے 2024 کے دوران 48.8 ارب روپے مختص ہوئے، جب کہ صرف 20.2 ارب روپے خرچ کیے گئے۔
رقم خرچ نہ کرنے والے محکمے
دی سٹیزنری پالیسی ریسرچ تنظیم کی تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 16 سالوں میں 48 ارب روپوں میں سے صرف 20 ارب روپے خرچ کیے گئے، جو محکمے اس رقم کو خرچ نہیں کرسکے ان میں محکمہ ماحولیات، ڈائریکٹوریٹ آف کلائمٹ چینج، کوسٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی، محکمہ جنگلات، محکمہ جنگلی حیات، محکمہ متبادل توانائی، محکمہ ازسر نو تعمیر یا ری ہیبلیٹیشن اور پراونشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی یا پی ڈی ایم اے شامل ہیں۔
بجٹ میں کس نے کتنے کروڑ بجٹ ضائع کر دیے؟
رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی سے متعلق آگاہی کے لیے مختص 4 کروڑ روپے بھی ضائع ہو گئے، محکمہ ماحولیات نے 16 سالوں میں ترقیاتی بجٹ کا 90 فی صد ضائع کیا۔
رپورٹ کے مطابق ادارہ تحفظ ماحولیات سوا 3 ارب میں سے صرف 34 کروڑ روپے اور محکمہ جنگلات نے 13 ارب میں سے 10 ارب روپے خرچ کیے، جب کہ محکمہ جنگلی حیات 16 سال میں محض 42 فی صد ترقیاتی بجٹ لگانے میں کامیاب ہو سکا۔ دوسری طرف صوبائی حکومت نے ماحولیات کے لیے مختص 20.2 ارب روپے کی نسبت ملیر ایکسپریس پر 27.5 ارب روپے خرچ کیے۔
ماہرین سندھ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
ماحولیاتی تبدیلیوں کے ماہرین کے مطابق پاکستان کے چاروں صوبوں کی نسبت سندھ سب سے زیادہ متاثر صوبہ ہے اور سندھ کو چاروں صوبوں کی نسبت شدید موسمیاتی آفات کا سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ سندھ خصوصاً کراچی میں ہیٹ ویو کی تازہ لہر میں ایدھی سروس کے مطابق 600 سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔
پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کی بنا پر شدید سیلاب، طوفان اور دیگر مسائل سے دوچار ہے، صوبہ سندھ بھی اسی طرح کے مسائل سے سب سے زیادہ دوچار ہے۔ جرمن کلائمٹ انڈیکس پاکستان اور خصوصاً سندھ کو ماحولیاتی تبدیلیوں کی بنا پر تباہی کا شکار دنیا کا 5 واں ملک قرار دے چکی ہے۔
قدرتی آفات اور ہیٹ ویو
سندھ میں 2010 کے بعد تقریباً ہر سال شدید سیلاب آ رہے ہیں، 2015 اور 2020 میں کراچی کو متاثر کرنے والی شدید ہیٹ ویو کے بعد کراچی سمیت صوبے کے شمالی شہروں بشمول جیکب آباد، موہن جو دڑو، سکھر، لاڑکانہ اور نواب شاہ میں ہر سال بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے نئے ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق سندھ کے ساحلی علاقوں میں سطح سمندر کے بڑھنے اور ٹراپیکل سائیکلون کے خطرات میں بے پناہ اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ میں ماحولیاتی تباہی کا سامنا کرنے کے لیے ایک منظم اور جامع پالیسی بنانے کی ضرورت کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔