انقرہ : ترکی کی طرف سے دھمکیاں دراصل امریکا کو دھوکا دینے اور واشنگٹن کو پسپائی اختیار کرنے پرمجبور کرنے کے لیے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق امریکا اور ترکی کے درمیان گذشتہ کچھ عرصے سے تناؤ کی کیفیت ہے اور یہ تناؤ بعض اوقات کشیدگی کی حد تک بڑھ جاتا ہے۔ امریکی خارجہ پالیسی کے ماہرین، پالیسی ساز اور صحافی بھی ترکی اور امریکا کے باہمی تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے مخدوش ہیں۔
امریکی تھینک ٹینک مڈل ایسٹ و افریقا اسٹڈی سینٹر سے وابستہ تجزیہ نگار اسٹیون کک کے جریدہ فارن پالیسی میں شائع ایک مضمون میں امریکا اور ترکی کے باہمی تعلقات کے اتارو چڑھاﺅ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
فاضل مضمون نگار نے لکھا ہے کہ حالیہ چند ہفتوں کے دوران امریکا اور ترکی کے درمیان تعلقات میں کافی اتارو چڑھاؤ آیا ہے، شمال مشرقی شام میں ترک فوج کی مداخلت پر ٹرمپ انتظامیہ میں نے اپنا سخت رد عمل ظاہر کیا اور اسے المیہ قرار دیا۔
امریکی اخبارواشنگٹن پوسٹ اور تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ خدشہ موجود تھا کہ شام میں ترک فوج کی مداخلت بڑی تعداد میں شہریوں کی نقل مکانی کا سبب بن سکتی تاہم فی الحال اس حوالے سے کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی۔
امریکا اور ترکی کے درمیان تعلقات مثالی نہیں مگر دونوں ملک اگر جنگ تک نہیں پہنچے تو اس کی وجہ ترکی کی سفارت کارانہ چالیں ہوسکتی ہیں۔ اس کی ایک دلیل امریکی اور ترک حکام کے درمیان شمال مشرقی شام کے معاملے میں 7 اگست کوایک معاہدے پر دستخط سے لی جاسکتی ہے۔بعض عہدیدار اسے امریکی ارادے پر ترکی کی فتح قرار دیتے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ترکی اور امریکا کے درمیان سمجھوتہ دراصل امریکی حکام کے اپنے ذہن اور منصوبے کے مطابق ہے، مگر بہت کم لوگوں نے اس احتمال کی طرف توجہ کی کہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی شام میں جنگ کی دھمکیاں محض ایک دھوکہ ہے اور ایک نئی تکنیک ہے، اس تکنیک کے استعمال کے بعد ترک صدر اپنی بدنیتی کا بھی واضح اظہار کر رہے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ترک صدر اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل کے درمیان ایک عرصے سے دو طرفہ تزویراتی شراکت چلی آ رہی ہے۔
ایردوان کو معلوم ہے کہ امریکی انتظامیہ امریکی انتظامیہ کے فیصلہ ساز عہدیدار ترکی کی دھمکیوں پر تزویراتی شراکت کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں.
یہ صرف ترکی اور امریکا کے درمیان جاری تعلقات کا معاملہ نہیں بلکہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے ہرملک اپنے اپنے مفادات کے مطابق فیصلے کرنے اور اپنے ویڑن کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ ترک صدر کو بہ خوبی علم ہے کہ امریکا کے ساتھ انقرہ کی تزویراتی شراکت کا باب بند ہونے کے قریب ہے۔
اسٹیون کک کا کہنا ہے کہ شام میں ترکی کی فوجی کارروائی ترکوں کے لیے محض خیالی بات نہیں۔ ایردوآن جنوری 2018ءسے اب تک ترک فوج کو 8 بار شام میں کارروائیوں کے احکامات دے چکے ہیں، رواں سال جولائی اور اگست میں وہ 3 بار شام میں فوجی مداخلت کی تنبیہ کرچکے ہیں۔
امریکی دانشور اسٹیون کک لکھتے ہیں کہ موضوعی تجزیے کی کوشش کے دوران یہ واضح ہوتا ہے کہ ترکی کی طرف سے دھمکیاں دراصل امریکا کو دھوکا دینے اور واشنگٹن کو پسپائی اختیار کرنے پرمجبور کرنے کے لیے ہیں۔
غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ شام میں ترکی کی جنگ ضروری نہیں،مغربی کردستان پہلے ہی منقسم ہے،مشرق میں جرابلس سے مغربی سرحد تک پہلے ترکی کا کنٹرول ہے، ترکی کا وہاں سے نکلنے کا کوئی امکان نہیں، ترکی کی موجودگی کی وجہ سے کردوں کے لیے اپنی مجوزہ ریاست کو متحد کرنا ممکن نہیں۔
شام میں جنگ سے گریز کی پالیسی کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اگر انقرہ شام میں وسیع فوجی آپریشن کرتا ہے تو رد عمل میں ترکی پر دہشت گردانہ حملے کیے جاسکتے ہیں۔ شام کےکرد اپنا سخت رد عمل ظاہر کریں گے۔