جمعہ, جولائی 5, 2024
اشتہار

موامبا کی یاد

اشتہار

حیرت انگیز

جب سے موسم انتہائی ابرآلود رہنے لگا تھا، جب سے مضحکہ خیز اور نشے کی حد تک مصرف پسند انگریز پورٹ سعید میں اترے تھے، ہمارے لیے دن بہت طویل ہو گئے تھے۔ تب بحری جہاز پر گزارے جانے والے بہت سے دنوں اور ہفتوں کے دوران ایک فضول سی بلاوجہ اداسی اور شوریدگی کی ایک غیر واضح سی عادت کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی سر اٹھانے لگا تھا کہ جیسے دنیا بھر کا سفر کرنے والے بیٹھے بیٹھے ضائع ہونے لگے ہوں۔ میں ان دو یا تین ہفتوں کے بارے میں کبھی سوچوں بھی تو ناخوشی سے اور مجبوری میں ہی سوچتا ہوں۔

ایک روز ہم ایک بار پھر کچھ کچھ کانپتے، سمندر میں پیدا ہونے والی آوازوں اور انجن کی چھک چھک کو سنتے عرشے پر ادھر ادھر کھڑے تھے۔ آسمان سیسے کی طرح سرمئی رنگ کے روئی جیسے بادلوں کی ایک دوسرے کے بہت قریب تک سرکتی جا رہی ٹکڑیوں سے بھرا ہوا تھا۔ سمندر ہمیں ہر طرف سے اپنے حصار میں لیے ہوئے اور کم آواز تھا، ریت کے چھوٹے چھوٹے ٹیلوں جیسی اس کی لمبی لہریں دور تک جانے کے باوجود کافی نیچی رہتی تھیں اور وہ ہلکا پیلا اور افسردہ تھا۔

ہمارے سامنے ایک ڈرم پر موامبا بیٹھا تھا، وہ سیاہ فام جس کا جہاز پر کام یہ تھا کہ وہ بوریت کے اوقات میں داستان گوئی، ہلکے پھلکے مزاح اور شرارتوں کے ساتھ ہماری تفریح کا سامان کرے۔ وہ یہ کام اپنی مضحکہ خیز نیگرو انگریزی میں کرتا تھا، جس دوران وہ جگہ جگہ زبان کی چبھنے والی لیکن دانستہ غلطیاں کر کے اپنے بیان کو بہت دلچسپ بھی بنا دیتا تھا۔ وہ بیٹھا ہوا سگار پی رہا تھا اور جہاز کے انجن کی چھک چھک سے ہم آہنگ ہو کر دائیں بائیں جھومتا، اپنی آنکھیں گھماتا، چھوٹے چھوٹے حصوں میں اپنا پرجوش بیان جاری رکھے ہوئے تھا۔

- Advertisement -

ہر کہانی سنانے کے بعد اسے ایک سگار دیا جاتا، جو دیکھا جائے تو اس کے کام کی کافی اچھی اجرت تھی۔ اس لیے کہ اس کی سنائی ہوئی کئی کہانیاں بالکل دلچسپ نہیں ہوتی تھیں اور کئی مرتبہ تو کوئی اسے سن بھی نہیں رہا ہوتا تھا۔ لیکن پھر بھی بوریت اور بیزاری کا شکار ہو کر ہم سب اس کے قریب جگہ جگہ کھڑے اس کو سنتے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے تھے۔ “اور سناؤ!” ہر چند منٹ بعد ہم میں سے کوئی ایک یہ کہتا اور ایک سگار اس کی طرف بڑھا دیتا۔ “شکریہ، میرے آقا۔ میں سناتا ہوں۔”

“ایک آدمی تھا، جو بیمار تھا۔ اس کے پیٹ میں درد تھا، دائیں پہلو میں بھی اور بائیں میں بھی۔ وہ بہت تکلیف میں تھا اور بار بار درد سے چیخنے لگتا۔ بڑا شدید درد تھا جو محسوس ہوتا تھا اس آدمی کو۔ پھر ایک دوسرا آدمی اس کے پاس آیا اور اپنے ساتھ دو پاؤنڈ سفید کاڑھا لایا، سؤر کی چربی سے بنا ہوا۔ بیمار آدمی وہ چربی والا کاڑھا پی گیا۔ اس کے بعد اسے متلی ہونے لگی تو اسے قے بھی کرنا پڑی۔ لیکن پھر وہ دوبارہ بالکل صحت مند ہو گیا۔” اس کے بعد موامبا خاموش ہو گیا۔ اس کی کہانی مکمل ہو چکی تھی۔

“کیا فضول باتیں کر رہے ہو،” ہم میں سے ایک بولا۔ “یہ لو، پکڑو اسے۔ اور اب ہمیں کوئی ڈھنگ کی بات سناؤ، تمہاری اپنی، کوئی مزیدار سی بات، سمجھے کہ نہیں؟”

“ٹھیک ہے۔ میں سناتا ہوں۔ طویل عرصہ پہلے، جب میں ابھی ایک برا انسان تھا۔ میں نے، موامبا نے، کچھ برے کام بھی کیے تھے۔ اب موامبا ایک اچھا انسان ہے، اور سفید فام مردوں کو طرح طرح کی کہانیاں سناتا ہے۔ جب میں ابھی ایک لڑکا ہی تھا، تو میں نہ تو چکی میں مکئی پیسنا چاہتا تھا اور نہ ہی بوریاں اٹھانا چاہتا تھا۔ مجھے لگتا تھا کام کرنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ میرا باپ مجھ سے مطمئن نہیں تھا اور مجھے کھانے کو کچھ نہ دیتا تھا۔ تب میں گاؤں میں ادھر ادھر گھومتا رہتا اور جو کچھ بھی کہیں سے ملتا، کھا لیتا۔ میں چھپ کر لوگوں کے برتنوں سے میٹھا دودھ بھی پی لیتا تھا یا دیہاتیوں کی بکریوں کے تھنوں سے۔ لوگوں کے برتنوں سے تو میں دودھ بڑی چالاکی سے دور سے ہی پی لیتا تھا۔ میں دودھ کے کسی برتن میں بہت لمبے سے کھوکھلے تنکے کا ایک سرا ڈال کر کہیں قریب ہی چھپ پر بیٹھ جاتا اور دودھ پی جاتا۔ جب میں گیارہ سال کا ہوا، تو میرے باپ نے ایک ایسے چور کے بارے میں کچھ سنا، جو ایک دوسرے گاؤں میں رہتا تھا۔ وہ بڑا ماہر چور تھا، اپنے پیشے کی مشہور شخصیت، اور میرے باپ نے فیصلہ کیا کہ مجھے اس چور کے پاس جانا چاہیے اور اس سے اس کے پیشے کے تربیت لینا چاہیے۔ میرا باپ مجھے لے کر اس کے پاس گیا اور یہ وعدہ بھی کیا کہ اگر اس نے مجھے ایک اچھا چور بنا دیا، تو اسے معاوضے کے طور پر رقم بھی ادا کی جائے گی۔ یوں ان کا آپس میں اتفاق رائے ہو گیا، انہوں نے زمین پر تھوکا، ایک دوسرے کو کمر پر تھپکی دی اور مجھے اس آدمی کے پاس ہی چھوڑ دیا گیا۔”

موامبا کچھ دیر کے لیے رکا اور اپنی ٹانگوں کو کسی جھومتے ہوئے درخت کی طرح دائیں بائیں حرکت دیتے ہوئے ہمیں دیکھنے لگا۔ “آگے!” ہم میں سے چند ایک اس سے اونچی آواز میں مخاطب ہوئے۔ “آپ بھی تو مزید کچھ کیجیے،” وہ بولا اور اس نے اپنا ایک ہاتھ آگے کر دیا۔ اس پر میں نے ایک چھوٹا سکہ اس کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ “شکریہ، میرے آقا! موامبا آپ کا شکر گزار ہے۔ تو میں اس ماہر چور کی کہانی سنا رہا تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ وہ بڑا مشہور چور تھا۔ میں اس کے پاس ٹھہر گیا اور وہ مجھے سکھانے لگا کہ چوری کیسے کی جاتی ہے۔ لیکن میں نے اس سے کچھ نیا تو سیکھا ہی نہیں تھا۔ ہم ادھر ادھر جاتے اور چوریاں کرتے۔ لیکن اکثر ہمارے حالات خراب ہی ہوتے اور ہمارے پاس کھانا بھی کم ہی ہوتا۔ ایک بار ہم ادھر ادھر گھوم رہے تھے کہ چلتے چلتے ایک ایسے راستے پر آ نکلے، جو جنگل کو جاتا تھا۔ ہم نے دور سے ایک آدمی کو آتے دیکھا، جس کے پیچھے رسی سے بندھی ایک بکری بھی چلی آ رہی تھی اور رسی کا سرا اس آدمی کے ہاتھ میں تھا۔ ہم اس راستے پر ایک طرف کو ہو کر چھپ گئے تھے۔
“تب میرے استاد نے ایک آہ بھری اور کہا، اگر یہ بکری کسی طرح مجھے مل جائے۔ لیکن یہ میرے ہاتھ آ کیسے سکتی ہے؟ یہ بکری تو کبھی بھی میری نہیں ہو سکتی! اس پر میں اس کا مذاق اڑانے لگا اور میں نے اسے کہا، یہ تو میں کر دوں گا کہ یہ بکری تمہاری ہو جائے۔ اس بات پر وہ خوش ہو گیا اور اسے کچھ حوصلہ بھی ہو گیا۔ تب میں نے اسے کہا، اس آدمی کے پیچھے پیچھے اس راستے پر چلتے رہو، یہاں تک کہ تم دیکھو کہ وہ اس جانور کو کہیں باندھ کر کھڑا کر دیتا ہے۔ پھر تم اسے چوری کر کے جلدی سے جنگل سے باہر لے جانا۔ استاد میری بات بڑے دھیان سے سنتا رہا تھا۔ اسی وقت میں جنگل میں اندر تک چلا گیا اور وہاں چھپ گیا۔ جب وہ بکری والا آدمی قریب پہنچا، تو میں نے زور زور سے ویسی آوازیں نکالنا شروع کر دیں، جیسی کوئی بکرا نکالتا ہے۔ اس آدمی نے یہ آوازیں سن کر سوچا کہ شاید جنگل میں کوئی بکرا راستہ بھول گیا تھا۔ اس بکرے کو پکڑنے کے لیے اس نے اپنی بکری کو ایک درخت کے ساتھ باندھا اور راستے سے ہٹ کر جنگل کے اندر چلا گیا۔

“پھر میں نے ممیاتے ہوئے اس آدمی کو تب تک جنگل میں بکرے کی تلاش میں مصروف رکھا، جب تک میرا استاد درخت سے بندھی بکری کھول کر اسے جنگل سے باہر نہ لے گیا۔ اس کے بعد کافی دور ایک جگہ پر میں اپنے استاد اور ماہر چور سے ملا۔ ہم نے بکری کو ذبح کیا اور اس کی کھال اتار لی۔ تب مجھے افسوس ہوا کہ میں نے بکری چوری کرنے کو کام اپنے استاد پر چھوڑ دیا تھا اور اسے خود چوری نہ کیا۔ موامبا جو کچھ کہہ رہا ہے، سب سچ ہے، حرف بہ حرف۔ پھر میرے استاد نے مجھے سامنے دریا کی طرف بھیج دیا تاکہ میں گوشت اور کھال دھو لاؤں۔ تب تک شام ہو چکی تھی اور اندھیرا پھیل چکا تھا۔ میں پیدل دریا تک گیا۔ وہاں میں نے ایک ڈنڈا تلاش کیا اور اسے بکری کی کھال پر اس طرح برسانا شروع کر دیا کہ یوں آوازیں پیدا ہونا شروع ہو گئیں۔ ساتھ ہی میں نے زور زور سے چیخ و پکار بھی شروع کر دی تھی۔ کیا آپ سننا چاہتے ہیں کہ موامبا تب کس طرح چیخنے لگا تھا؟ ۔۔ نہیں؟ اچھا ٹھیک ہے!

“میرے استاد نے میری چیخ و پکار سنی، تو دور سے ہی چلا کر پوچھنے لگا کہ ہوا کیا تھا۔ میں نے اسے جواب تو دیا لیکن ساتھ ہی منت سماجت کرتے ہوئے اس سے مدد کی درخواست بھی کر دی، اونچی آواز میں یہ کہتے ہوئے کہ بکری کا مالک ایک آدمی کو ساتھ لیے وہاں آ گیا تھا اور اس نے مجھ پر حملہ کرتے ہوئے دھمکی بھی دے دی تھی کہ وہ مجھے جان سے مار دے گا۔ ساتھ ہی میں نے بہت اونچی آواز میں یہ بھی کہہ دیا تھا کہ میرے استاد کو فوراً میری مدد کو آنا اور مجھے بچانا چاہیے۔ لیکن استاد نے جب میری آواز سنی، تو اپنی جان بچانے کے لیے وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ پھر میں بکری کا گوشت اور کھال لے کر اپنے باپ کے پاس گھر چلا گیا۔”
اس کے بعد موامبا خاموش ہو گیا۔ ہم اس پر دباؤ ڈالنے لگے کہ وہ کہانی سنانا جاری رکھے۔ “مجھے پیاس لگی ہے،” اس نے کہا۔ اس سے ایک وہسکی کا وعدہ کیا گیا تو وہ بولا، “مجھے وہسکی ملے گی۔ میں کہانی کا باقی حصہ سناتا ہوں۔ تو حضرات! اگلے روز وہ ماہر چور ہمارے گھر پہنچ گیا تاکہ میرے بارے میں دریافت کر سکے۔ جب میں نے اسے آتا دیکھا تو میں نے جلدی سے بکری کا خون اپنے چہرے پر ملا اور چٹائی پر لیٹ گیا۔ وہ آیا اور پوچھنے لگا کہ ہوا کیا تھا اور میں کیسا تھا۔ میں نے بھی جی بھر کر شکایتیں کر دیں۔ گوشت تو ہم نے پہلے ہی چھپا دیا تھا۔ میرے باپ نے اسے کہاکہ وہ مجھے دوبارہ اپنے ساتھ لے جائے۔ مگر استاد بولا کہ وہ اس حالت میں نہیں تھا کہ مجھے کھانے کے لیے کچھ دے سکے اور پھر ویسے بھی میں کافی کچھ سیکھ چکا تھا۔ لیکن یہ کہ میں بکری کے معاملے میں اسے دھوکا دے چکا تھا، یہ بات وہ نہیں جانتا تھا۔ میرے باپ نے میری تربیت کرنے پر اسے کچھ رقم ادا کی، لیکن طے شدہ معاوضے سے آدھی۔ بکری کا گوشت اور کھال ہمارے پاس تھے اور میرا استاد واپس اپنے گاؤں چلا گیا۔” “موامبا! کیا یہ کہانی پوری ہو گئی؟” “ہاں، اتنی ہی تھی۔ میں سنا چکا۔ اب مجھے ایک وہسکی ملے گی۔”
اس طرح سیاہ فام موامبا نے ہمیں کہانی سنائی، جسے ہم نے دھیان سے سنا، تھوڑا سا اس کی اس بکری والی کہانی پر ہنسے بھی اور پھر اسے پینے کے لیے ایک وہسکی بھی دے دی۔ وہ جب اظہار تشکر کے لیے ہمیں دانت نکال کر دیکھتا، اپنا باؤلر ہیٹ سر سے تھوڑا سا اوپر اٹھا کر احترام کا اظہار کرتا اور اپنی زرد اور بھورے رنگ کی دھاریوں والی ٹانگوں سے ڈرم بجانے لگتا تھا، تو بڑا مضحکہ خیز لگتا تھا۔ اس کے جوتے رنگین پٹیوں والے سرخ بادبانی کپڑے کے بنے ہوئے تھے۔ اس نے گھٹنوں سے اوپر تک آنے والی موٹی جرابیں نہیں پہنی ہوئی تھیں۔ مجھے اس کو دیکھ کر اکثر افسوس ہوتا۔ کئی بار تو میں اس کی وجہ سے شرمندگی بھی محسوس کرتا تھا اور تقریباً اتنی ہی مرتبہ مجھے ہم سب کی وجہ سے بھی شرمندگی محسوس ہوتی۔ وہ کئی مرتبہ واضح طور ہر ہم سب ہر ہنستا بھی تھا۔ اے موامبا، میں بعد میں کتنی مرتبہ تمہارے بارے میں سوچتا رہا ہوں۔ میری بے چینی بعد ازاں مجھے مزید کتنی ہی مرتبہ دور پار کے ملکوں میں لے گئی۔ کتنی ہی مرتبہ پھر ایسا بھی ہوا کہ مجھے ایک ہی طرح کی ناامیدی ہوئی؛ جس بیماری کی وجہ وطن بنا ہو، اس کا علاج بار بار کے سفر اور نت نئے اجنبی مناظر کیسے کر سکتے ہیں؟

ہم نے اپنے نیگرو (تب سفید فام باشندوں کی طرف سے عمومی حقارت کے باعث افریقی باشندوں کو “نیگرو” یا “نِگر” کہہ کر بلایا جانا عام تھا، جو اب بجا طور پر بہت برا سمجھا جاتا ہے: مترجم) کو دیکھ کر اپنے سروں کو تھوڑا تھوڑا آگے کی طرف جھکایا اور ہم میں سے شاید ہر ایک کا دل میں تو اس سے مطلب کچھ اچھا ہی تھا۔ ہم میں سے ہر ایک نے کوشش کی کہ اچھے موامبا کے ساتھ گفتگو میں نفرت کا مظہر کوئی ایسا لہجہ اختیار نہ کیا جائے، جس لہجے میں سفید فام اپنی نوآبادیوں میں سیاہ فام باشندوں سے بات کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے سست ہو چکے ہاتھ پاؤں پھیلا دیے، کبھی کبھی تھوڑا سا عرشے پر ادھر ادھر بے مقصد گھومتے رہے، اپنے ٹھنڈے ہو چکے ہاتھوں کو رگڑتے ہوئے طویل خاموشی سے لیکن عدم اطمینان کی کیفیت کے ساتھ دیر تک اپنے سامنے پھیلی بنجر وسعتوں کو دیکھتے رہے، روئی جیسے نرم بادلوں سے بھرے آسمان کو اور غروب آفتاب کے وقت کسی سرمئی شیشے کی طرح اس ہلکے زرد سمندر کو جو ہمارے سامنے دور تک پھیلا ہوا تھا۔

(نوبل انعام یافتہ جرمن ادیب ہیرمان ہَیسے کی برطانوی نوآبادیاتی دور کے عروج پر 1905ء میں لکھی گئی کہانی، جرمن سے براہ راست اردو ترجمہ: مقبول ملک)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں