ایک چمکیلی دوپہر کو ایک چیونٹی خوراک کی تلاش میں تیزی سے بھاگی جا رہی تھی کہ اس کا ٹاکرا ایک پیوپا سے ہوا جو اپنی جون بدلنے کی حالات میں تھا۔
پیوپا نے اپنی دُم ہلائی تو چیونٹی اس کی طرف متوجہ ہوئی اور اسے احساس ہوا کہ یہ بھی کوئی جاندار ہے۔ وہ حقارت سے بولی: ” بیچارے جانور، تمہیں دیکھ کر تو ترس آتا ہے، تمہاری قسمت کتنی خراب ہے کہ تم حرکت بھی نہیں کر سکتے، اور اپنے خول میں قید صرف دم ہلا سکتے ہو، جب کہ میں اپنی مرضی اور خوشی سے ادھر، ادھر تیزی سے دوڑ سکتی ہوں۔ اور اگر میں چاہوں تو سب سے اونچے درخت کی سب سے اوپر والی شاخ تک بھی پہنچ سکتی ہوں۔” پیوپا نے یہ سب سنا لیکن چیونٹی کو جواب دینے سے گریز کیا۔
کچھ دنوں بعد کے جب چیونٹی کا گزر ایک بار پھر وہاں سے ہوا۔ وہاں پیوپا کا بس خول پڑا تھا۔ وہ حیران ہوئی کہ اس خول میں موجود پیوپا کہاں گیا۔ ابھی وہ یہ سوچ رہی تھی کہ اسے اپنے اوپر سائے کا احساس ہوا۔ اس نے اٹھا کر دیکھا تو اسے بڑے بڑے پروں والی ایک رنگ برنگی خوب صورت تتلی ہوا میں اڑتی نظر آئی۔
تتلی نے چیونٹی سے کہا: "میں وہی پیوپا ہوں جسے تم نے چند روز قبل دیکھ کر اس پر ترس کھایا تھا اور اپنی برتری جتلائی تھی، اب مجھے تم پر ترس آتا ہے۔”
یہ کہہ کر تتلی فضا میں بلند ہوئی اور موسمِ گرما کی ہوا کے دوش پر، فضا میں تیرتی، چیونٹی کی نظروں سے ہمیشہ کے لیے اوجھل ہوگئی۔
سبق: کسی کا ظاہر دیکھ کر عجلت میں کوئی قیاس کرنا اور اس پر اپنی رائے دینا شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے۔
(مشہور یونانی داستان گو ایسوپ کی ایک حکایت جس کا ترجمہ قیصر نذیر خاورؔ نے کیا ہے)