تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

یورپ پر عربی تہذیب کا احسان

پندرہویں صدی میں قسطنطنیہ کے سقوط (1453ء) اور ویانا کی سرحد تک عثمانی فوجوں کے پہنچنے کے بعد، جس نے یورپ کی چولیں ہلا دیں اور جس سے اہلِ یورپ کے حصولِ علم کے رجحان میں مزید تیزی آئی اور دوسری ایک وجہ یہ بھی رہی کہ صلیبی جنگوں میں مسلمانوں سے معاندانہ ٹکراؤ اور اسپین میں مسلمانوں سے مصالحانہ میل جول کا نتیجہ یورپ کی نشاۃِ ثانیہ کی شکل میں ظاہر ہوا۔

مسیولیٹری لکھتے ہیں کہ ’’اگر تاریخ میں عرب منصۂ شہود پر نمودار نہ ہوتے تو علوم و فنون اور تہذیب و تمدن میں یورپ کی بیداری کئی صدی اور مؤخر ہو جاتی۔‘‘

بریولٹ اپنی کتاب ’’انسانیت کی تعمیر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’جدید دنیا پر عربی تہذیب کا سب سے بڑا احسان علم ہے، لیکن اس کے نتائج بعد میں رونما ہوئے۔ جس عظیم جینیئس نے اسپین میں عربی تہذیب کو جنم دیا وہ ایک طویل وقت گزارنے کے بعد اپنے شباب کو پہنچی اور تنہا علم ہی نے یورپ کی حیاتِ نو نہیں کی بلکہ اسلامی تہذیب کے اور بھی بہت سے مؤثرات کارفرما تھے جس اسلامی تہذیب نے اپنے فن کی پہلی کرنیں یورپ پر ڈالیں۔ یورپ کی ترقّی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو اسلامی تہذیب سے متأثر ہوئے بغیر رہ گیا ہو۔‘‘

یورپ نے مسلمانوں سے علم سیکھا۔ تہذیب و تمدن سیکھا اور نظریۂ آزادی حاصل کیا اور مسلمانوں سے تجربی علوم حاصل کیے اور ان پر اپنی نشاۃِ ثانیہ کی بنیاد رکھی۔

یورپ کی نشاۃِ ثانیہ:
قرون وسطیٰ کے مقابلے میں جدید دور کے ذہنی رنگ ڈھنگ کا آغاز اٹلی میں ہونے والی تحریک سے ہوا جسے نشاۃِ ثانیہ کہتے ہیں۔ ابتدا میں چند لوگ اس طرح کا نظریہ رکھتے تھے جس میں خاص طور پر پٹرارک کا نام آتا ہے لیکن پندرہویں صدی میں یہ تحریک باذوق، باادب، دنیا دار اور دین دار دونوں قسم کے اطالوی باشندوں کی ایک بڑی تعداد میں پھیل گئی۔

فلورینس دنیا کا بہت تہذیب یافتہ شہر ہونے کے علاوہ نشاۃِ ثانیہ کا منبع ہونے کی وجہ سے بھی اہم ترین سمجھا جاتا ہے۔ ادبی دنیا کے تقریباً تما م بڑے ادبا اور دنیائے فن کے اہم ترین اور نام وَر لوگوں کا تعلق فلورینس سے تھا۔

تیرہویں صدی میں فلورینس میں تین طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے تھے۔ اشرافیہ (دولت مند اور جاگیردار) امیر کبیر تجار( بورژوا) اور ادنیٰ لوگوں کا طبقہ۔ یہ سب باہمی مفادات کے لیے باہم دست و گریباں تھے، ان میں سے اشرافیہ کے لوگ بنیادی طور پر پوپ کے خلاف شہنشاہ کے حمایتی تھے جب کہ دوسرے طبقوں کے لوگ شہنشاہ کے خلاف پوپ کی حمایت کر رہے تھے۔ ان میں اوّل الذّکر طبقہ شکست سے دوچار ہوا اور چودہویں صدی میں ادنیٰ طبقہ کے لوگوں نے بھی بورژوا طبقے سے اپنی جان چھڑا لی۔

نشاۃِ ثانیہ کا دور فلسفے میں حاصل کی گئی کسی بڑی کام یابی کا دور نہیں تھا، لیکن اس کے نتائج کے طور پر جو چیزیں سترہویں صدی میں ہوئیں وہ بڑی اہمیت کا حامل تھی۔ اس نے افلاطون کے مطالعہ کا ازسر نو احیا کیا۔ آزادیِ رائے اور فکری آزادی پروان چڑھی۔ چنانچہ نشاۃِ ثانیہ کے نتیجہ میں انسانوں نے معقول انداز سے سوچنا شروع کیا اور قدیم دور سے چلی آرہی لغویات کی بابت ان کے افکار و خیالات میں وسعت پیدا ہوئی۔

اسی طرح اخلاقی حالات و واقعات کے دائرہ کار سے باہر نشاۃِ ثانیہ بڑی خوبیوں کی حامل تھی۔ فنِ تعمیرات، فنِ مصوّری، شاعری اور دیگر علوم وفنون کو اس دور میں بڑی ترقّی حاصل ہوئی۔ عربی و عبرانی زبان سیکھنے کا عام رواج ہوا۔ مشنریوں نے ادارے اور اسکول قائم کیے۔ اس دور میں بڑے بڑے فلسفی اور اہلِ علم پیدا ہوئے جیسے لیوناڈو، مائیکل اینجلو اور میکاؤلی وغیرہ۔

از: محمد اشفاق عالم ندوی

Comments

- Advertisement -