تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ماہرین ڈپریشن کی اہم وجہ تک پہنچ گئے

دنیا بھر میں شہری ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں لیکن نوجوانوں میں اس کی شرح زیادہ پائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ مختلف ممالک میں ذہنی دباؤ کے باعث خود کشیاں رپورٹ ہوتی آرہی ہیں۔

طبی ماہرین نے ایک تحقیق کے ذریعے ڈپریشن کی اہم وجہ جاننے کی کوشش کی اور ممکنہ طور پر کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق لڑکپن میں اپنی جسمانی ساخت سے ناخوش نوجوانوں میں کچھ برسوں بعد ڈپریشن کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔

یہ تحقیق طبی جریدے جرنل آف ایپیڈیمولوجی اینڈ کمیونٹی ہیلتھ میں شایع ہوئی ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ نوجوانوں کی ڈپریشن کی وجہ ظاہری روپ بھی بنتی ہے، اور لڑکیوں میں یہ شرح لڑکوں کی بہ نسبت زیادہ ہوتی ہے۔

تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں 61 فیصد نوجوان جسمانی عدم اعتماد کا شکار ہوتے ہیں، اور بلوغت سے قبل اپنی شخصیت کے ظاہری روپ سے ناخوش نوجوانوں میں ڈپریشن کا خطرہ 50 سے 285 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔ محققین نے اس ریسرچ میں مخصوص لوگوں کو شامل کرکے طویل المیعاد بنیاد پر مشاہدہ کیا۔

تحقیق میں شامل 14 سال کے 3753 بچوں(1675 لڑکے اور 2078 لڑکیاں) سے کہا گیا کہ وہ اپنی جسمانی شخصیت کو صفر سے 5 کے درمیان اسکور دیں تو لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں نے زیادہ عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

ڈپریشن کے بارے میں اہم معلومات

بتیس فیصد لڑکیوں اور 14 فیصد لڑکوں نے اپنے وزن پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ، اسی طرح 27 فیصد لڑکیاں اور 14 فیصد لڑکے اپنی جسمانی ساخت سے ناخوش تھے۔ خیال رہے کہ یہ تحقیق برطانیہ کے ایک خاص علاقے کے لوگوں پر کی گئی تھی۔ وہی بچے جب 18 سال کے ہوئے تو ان میں ڈپریشن کی علامات کا تجزیہ کیا گیا۔

یہ بھی پتا چلا کہ لڑکیوں کو ڈپریشن کا تجربہ لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے، 7 فیصد لڑکیوں اور3 فیصد لڑکوں میں ڈپریشن کی کم از کم سنگین علامت دیکھی گئی۔ جبکہ ڈیڑھ فیصد لڑکیوں اور ایک فیصد سے کم لڑکوں کو ڈپریشن کا سامنا ہوا، نوعمری میں اپنے جسم سے ناخوش افراد میں ڈپریشن کا خطرہ بڑھتا ہے۔

Comments

- Advertisement -