گزشتہ دنوں سابق فیس بک ملازمہ اور ڈیٹا سائنسدان کا کہنا ہے کہ فیس بک ہمیشہ نفرت اور غلط معلومات کو بڑھاوا دیتا ہے اور جب بھی عوامی بھلائی اور کمپنی کے فائدے کا معاملہ آتا ہے تو کمپنی ہمیشہ اپنے مفادات کا انتخاب کرتی ہے۔
تفصیلات کے مطابق دنیا کے طاقتور ترین سمجھے جانے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک کے ستارے آج کل گردش میں ہیں جس کی تازہ وجہ کمپنی کی ایک سابقہ ملازمہ فرانسس ہیوگن بنیں۔
فرانسس ہیوگن فیس بک کی سِوک انٹیگرٹی شعبے میں بحیثیت ڈیٹا سائنٹسٹ کام کرچکی ہیں اور کافی عرصے تک اپنی شناخت چھپا کر امریکی میڈیا میں فیس بک کی موجودہ پالیسیز کے معاشرے پر مبینہ مضر اثرات پر بات کرتی رہی ہیں۔
رواں ہفتے انہوں نے بالآخر دنیا کے سامنے آنے کا فیصلہ کرہی لیا۔ منگل کے روز وہ امریکی سینیٹ کی ایک کمیٹی کے سامنے حاضر ہوئیں اور انہوں نے اراکین کو بتایا کہ فیس بک خصوصاً بچوں کو نقصان پہنچا رہی ہے، معاشرے میں تفریق بڑھا رہی ہے، جمہوریت کو نقصان پہنچا رہی ہے اور یہ سب صرف اور صرف زیادہ منافع کمانے کا چکر ہے۔
سماجی رابطے کے نیٹ ورک فیس بک کی سابقہ ڈیٹا سائنٹسٹ فرانسس ہاؤگن کا انٹرویو ایک ٹی وی پروگرام "ساٹھ منٹ” میں نشر کیا گیا۔ قبل ازیں ان کے اس تناظر میں مضامین مشہور امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل میں بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔
انہوں نے سینیٹ کی کمیٹی کو بتایا کہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تفریق بڑھی، نقصان بڑھا، جھوٹ بڑھا اور دھمکیاں بڑھیں، س کے علاوہ کچھ کیسز میں آن لائن ہونے والی خطرناک بات چیت نے حقیقت کا روپ دھار لیا اور تشدد بڑھنے سے نقصان سامنے آئے اور لوگ بھی مارے گئے۔
Facebook and Instagram deliberately target girls and young women with dangerous content.
Zuckerberg is profiting off of misery.
CONGRESS MUST ACT.#DeleteZuckerberg https://t.co/VYLPmoe9US— BrooklynDad_Defiant! (@mmpadellan) October 7, 2021
ان کا الزام ہے کہ فیس بک انتظامیہ نے منافع کو ترجیح دی بجائے اس کے کہ اس پلیٹ فارم کو مزید محفوظ بنایا جاتا۔ فرانسس ہیوگن نے ایک اندرونی ریسرچ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ فیس بک کی ہی ملکیت انسٹاگرام بھی بچوں میں خودکشی کے رجحانات بڑھا رہا ہے۔
تاہم فیس بک نے ان تمام الزامات کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے 40 ہزار ملازمین رکھے ہوئے ہیں جو نفرت انگیز مواد کی تشہیر کو روکنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ فیس بک کی سابقہ ملازمہ کی سینیٹ میں گواہی کی گونج سوشل میڈیا خصوصاً ٹوئٹر پر بھی سنائی دے رہی ہے۔
NEW VIDEO: #DeleteZuckerberg
How many young women have to die Mark Zuckerberg? pic.twitter.com/CdgJds84Ww
— Don Winslow (@donwinslow) October 7, 2021
معروف امریکی ناول نگار نے جمعہ کے روز ٹوئٹر پر دو منٹ 19 سیکنڈ کی ایک ویڈیو شیئر کی جس میں فرانسس ہیوگن کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ نیو ویڈیو: ڈیلیٹ زکربرگ۔ کتنی نوجوان خواتین کو مرنا ہوگا مارک زکربرگ؟ ٹوئٹر پر اس وقت بھی "ڈیلیٹ زکر برگ” ٹاپ ٹرینڈ میں سے ایک ہے۔
Both the Left and the Right agree that it’s time to #DeleteZuckerberg.
It is time to take away the power from a man so craven for it.
He does not control America. We do. The people!
— Lavern Spicer (@lavern_spicer) October 7, 2021
امریکی بائیں بازو کے بلاگر ماجد پڈیلن جن کا ٹوئٹر پر "بروکلن ڈیڈ” کے نام سے اکاؤنٹ ہے نے لکھا کہ "فیس بک اور انسٹاگرام جان بوجھ کر لڑکیوں اور نوجوان خواتین کو خطرناک مواد کے لیے اپنا نشانہ بناتے ہیں۔”’زکر برگ مصیبتوں کے ذریعہ منافع کما رہے ہیں۔
فلوریڈا سے ریپبلکن رہنما لاورن اسپائسر نے لکھا کہ وقت آگیا ہے کہ ایک انسان سے طاقت واپس لے لی جائے۔‘ وہ امریکا کو کنٹرول نہیں کرتا۔ ہم کرتے ہیں، لوگ کرتے ہیں۔
اس کےعلاوہ معروف امریکی میگزین "دا ٹائمز” کے اس ماہ شمارے پر فیس بک کے بانی مارک زکربرگ کی تصویر بھی چھپی ہے جس پر لکھا ہے ’ڈیلیٹ فیس بک؟ فیس بک سے متعلق فرانسس ہیوگن کے انکشافات پر مبنی خبر اس ماہ "دا ٹائمز میگزین” کی کور اسٹوری میں بھی نمایاں کی گئی ہے۔