پشاور: پشاور ہائیکورٹ نے رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) فیصل جاوید کو ایک ماہ کیلیے حفاظتی ضمانت دے دی۔
فیصل جاوید کی مقدمات تفصیلات کیلیے درخواست پر سماعت جسٹس صاحبزداہ اسد اللہ نے کی۔ فاضل جج نے درخواست گزار کے وکیل عالم خان ادینزئی ایڈووکیٹ سے استفسار کیا کہ یہ ان کا نیا کیس ہے؟
عالم خان ادینزئی ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ یہ مقدمات تفصیلات کیلیے کیس ہے۔ عدالت میں موجود اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نعمان کاکاخیل کا کہنا تھا کہ فیصل جاوید کے خلاف 16 ایف آئی آرز درج ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: فیصل جاوید کو ائیرپورٹ پر عمرہ ادائیگی کیلیے جانے سے روک لیا گیا
اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کا بھی کوئی کیس نہیں ہے، صوبائی حکومت کا بھی کوئی کیس نہیں ہے۔
دوسری جانب، اسپیشل پراسیکیوٹر نیب نے پشاور ہائیکورٹ کو بتایا کہ نیب کی طرف سے رپورٹ جمع کی ہے ان کے خلاف کوئی انکوائری نہیں۔
27 مارچ کو پشاور ہائیکورٹ نے فیصل جاوید کا نام پروویژنل نیشنل آئڈینٹیفکیشن لسٹ (پی این آئی ایل) اور پاسپورٹ کنٹرول لسٹ (پی سی ایل) سے نکالنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے پی ٹی آئی رہنما کی درخواست پر مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ درخواست گزار کو عمرہ ادائیگی پر جانے دیا جائے، نام 2024 کے درج 3 مقدمات کی وجہ سے لسٹ میں شامل کیا گیا، پی این آئی ایل اور پی سی ایل سے نکالا جائے۔
درخواست پر سماعت جسٹس صاحبزادہ اسداللہ اور جسٹس اورنگزیب نے کی تھی۔ دوران سماعت جسٹس صاحبزادہ اسداللہ نے کہا کہ تھا جن ایف آئی آرز میں آپ کا نام پی این آئی ایل پر ڈالا وہ ہمیں بتا سکتے ہیں۔ اس پر فیصل جاوید نے بتایا تھا کہ جی ہمارے پاس ہیں اسلام آباد کے کیسز ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثنا اللہ نے عدالت کو بتایا تھا کہ ان کے خلاف 6 ایف آئی آرز ہیں جو 2024، 2023، 2022 میں درج ہوئیں۔ اس پر جسٹس صاحبزادہ اسداللہ نے کہا تھا کہ ان کیسز میں جو نام لسٹ میں ڈالا تھا کیا اب اس میں ان کا نام نکالا ہے؟
ثنا اللہ نے بتایا تھا کہ ان کیسز میں ان کا نام لسٹ سے نکالا ہے، 3 میں نام پی این آئی ایل میں ڈالا اور پاسپورٹ کنٹرول لسٹ میں بھی ہے، ان کیسز میں 7 اے ٹی اے بھی لگا ہے، ان کیسز میں یہ عدالتوں میں پیش نہیں ہوئے۔
جسٹس صاحبزادہ اسداللہ نے استفسار کیا کہ کتنے کیسز بچے جن میں ان کا نام لسٹ میں نہیں ڈالا۔ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ 6 ایسی ایف آئی آرز ہیں جن میں ان کا نام لسٹ میں نہیں ڈالا۔
سماعت کا مزید احوال پڑھنے کیلیے یہاں کلک کریں