فیصل آباد: تمام ترحکومتی اقدامات کے باوجود پنجاب میں گھریلو ملازمین پر تشدد کے واقعات نہ تھم سکے، فیصل آباد میں پیش آنے واقعے میں ایک اور گھریلو ملازمہ مبینہ تشدد کے باعث زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔
تفصیلات کے مطابق واقعہ فیصل آباد کے علاقے ایوب کالونی میں پیش آیا ہے، جہاں جڑانوالہ سے تعلق رکھنے والی گھریلو ملازمہ سائرہ کی پر اسرار موت ہوئی ہے۔
پندرہ سالہ سائرہ کی والدہ شمیم نے الزام عائد کیا ہے کہ میری بیٹی گذشتہ سات ماہ سے یہاں کام کررہی تھی، اسے ماہانہ ساڑھے آٹھ ہزار روپے ملتے تھے، کام کے دوران مالکن علیزہ بیٹی پر تشدد کرتی تھی، مالکن کے تشدد سے میری بیٹی جاں بحق ہوئی۔
مقتول کی والدہ نے میڈیا کو بتایا کہ مالکن علیزہ نے بخار سے سائرہ کی موت کا ڈرامہ رچایا، ہم گھر پہنچے تو سائرہ کی پھندا لگی لاش ملی، میری وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے اپیل ہے کہ ہمیں انصاف دلایا جائے۔
یاد رہے کہ اسلام آباد میں دو ہزار سولہ کے دوران طیبہ تشدد کیس سامنے آیا تھا، جہاں ایک جج کہ گھر سے زخمی حالت میں ملازمہ بچی کو کو برآمد کیا گیا تھا۔
گھریلو کام کاج کے لیے رکھئی گئی بچی کا جسم تشدد سے نیلا پڑ چکا تھا، تاہم سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہوئی تو چار دن شور و غوغا ہوا، جج کو کرسی سے اتار دیا گیا اور اس کی بیوی کو ایک سال قید ہوئی۔
ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ
یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے دوہزار تیرہ میں گھریلو ملازمین پر قانون سازی کی اور دوہزار انیس میں پنجاب حکومت نے ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ نافذ کیا تھا، اس ایکٹ کے سیکشن 3 کے مطابق کوئی بھی بچہ جس کی عمر پندرہ سال سے کم ہے اس کو گھر کے کام کاج کے لیے نہیں رکھا جاسکتا۔
ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ کا سیکشن چار گھریلو کارکن کہ حقوق کا تعین کرتا ہے ،اس سیکشن کی کل 6 شقیں ہیں۔ اس سیکشن کی شق نمبر دو کے مطابق آپ کسی بھی گھریلو کارکن کو کام پر رکھتے ہوئے، اس کی ملازمت کی تجدید کرتے ہوئے یا اس کی اجرت کا فیصلہ کرتے ہوئے اس کے ساتھ رنگ، نسل، مذہب، ذات پات اور جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں برتیں گے۔