جمعرات, مئی 15, 2025
اشتہار

فیض صاحب: دل چسپ یادیں

اشتہار

حیرت انگیز

ماہنامہ شبستاں کا فیض نمبر 1985ء میں شایع ہوا تھا۔ شبستاں، اپنے دور کا ایک نیم ادبی تفریحی اردو ڈائجسٹ تھا جو ہندوستان اور پاکستان میں اردو قارئین میں بے حد مقبول تھا۔ شبستاں کا انقلابی شاعر فیض صاحب پر جو خاص نمبر شائع ہوا تھا اس میں ان کی مختصر خودنوشت بھی شامل تھی۔

اس خودنوشت میں فیض صاحب نے دل چسپ یادیں بھی قلم بند کی ہیں۔ اس تحریر سے چند پارے ملاحظہ کیجیے۔ وہ لکھتے ہیں:

صبح ہم اپنے ابا کے ساتھ فجر کی نماز پڑھنے مسجد جایا کرتے تھے۔ معمول یہ تھا کہ اذان کے ساتھ ہم اٹھ بیٹھے۔ ابا کے ساتھ مسجد گئے، نماز ادا کی اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی سے جو اپنے وقت کے بڑے فاضل تھے، درس قرآن سنا۔ ابا کے ساتھ ڈیڑھ دو گھنٹے کی سیر کے لیے گئے، پھر اسکول۔

رات کو ابا بلا لیا کرتے تھے خط لکھنے کے لیے۔ اس زمانے میں انہیں خط لکھنے میں کچھ دقت ہوتی تھی۔ ہم ان کے سکریٹری کا کام انجام دیتے تھے۔ انہیں اخبار بھی پڑھ کر سناتے تھے۔ ان مصروفیات کی وجہ سے ہمیں بچپن میں بہت فائدہ ہوا۔ اردو انگریزی کے اخبارات پڑھنے اور خطوط لکھنے کی وجہ سے ہماری استعداد میں کافی اضافہ ہوا۔

ایک اور یاد تازہ ہوئی۔ ہمارے گھر سے ملی ہوئی ایک دکان تھی، جہاں کتابیں کرائے پر ملتی تھیں۔ ایک کتاب کا کرایہ دو پیسے ہوتا۔ وہاں ایک صاحب ہوا کرتے تھے جنہیں سب "بھائی صاحب” کہتے تھے۔ بھائی صاحب کی دکان میں اُردو ادب کا بہت بڑا ذخیرہ جمع تھا۔ ہماری چھٹی ساتویں جماعت کی طالب علمی میں جن کتابوں کا رواج تھا وہ آج کل قریب قریب مفقود ہو چکی ہیں جیسے طلسم ہوشربا، فسانۂ آزاد، عبدالحلیم شرر کے نادل وغیرہ۔ یہ سب کتابیں پڑھ ڈالیں۔ اس کے بعد شاعروں کا کلام پڑھنا شروع کیا۔ داغ کا کلام پڑھا۔ میر کا کلام، غالب تو اس وقت بہت زیادہ ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ دوسروں کا کلام بھی آدھا سمجھ میں آتا تھا اور آدھا نہیں آتا تھا لیکن ان کا دل پر اثر کچھ عجب قسم کا ہوتا تھا۔ یوں شعر سے لگاؤ پیدا ہوا اور ادب میں دل چسپی ہونے لگی۔

ہمارے ابا کے منشی گھر کے ایک طرح کے منیجر بھی تھے۔ ہمارا ان سے کسی بات پر اختلاف ہو گیا تو انہوں نے کہا کہ اچھا آج ہم تمہاری شکایت کریں گے کہ تم ناول پڑھتے ہو۔ ہمیں اس سے بہت ہی ڈر لگا اور ہم نے ان کی بہت منت کی کہ شکایت نہ کریں مگر وہ نہ مانے اور ابا سے شکایت کر ہی دی۔ ابا نے ہمیں بلایا اور کہا میں نے سنا ہے تم ناول پڑھتے ہو۔ میں نے کہا جی ہاں۔

کہنے لگے ناول ہی پڑھنا ہے تو انگریزی ناول پڑھو، اردو کے ناول اچھے نہیں ہوتے، شہر کے قلعہ میں جو لائبریری ہے وہاں سے ناول لا کر پڑھا کرو۔

ہم نے انگریزی ناول پڑھنے شروع کیے۔ ڈکنس، ہارڈی اور نہ جانے کیا کیا پڑھ ڈالا۔ وہ بھی آدھا سمجھ میں آتا تھا اور آدھا پلے نہ پڑتا تھا۔ اس مطالعہ کی وجہ سے ہماری انگریزی بہتر ہو گئی۔ دسویں جماعت میں پہنچنے تک محسوس ہوا کہ بعض استاد پڑھانے میں کچھ غلطیاں کر جاتے ہیں، ہم ان کی انگریزی درست کرنے لگے۔ اس پر ہماری پٹائی تو نہ ہوتی البتہ وہ استاد کبھی خفا ہو جاتے اور کہتے اگر تمہیں ہم سے اچھی انگریزی آتی ہے تو پھر تم ہی پڑھایا کرو ہم سے کیوں پڑھتے ہو۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں