قیامِ پاکستان کے بعد اردو کے جس شاعر کو پاکستان اور بین الاقوامی سطح پر سب سے زیادہ شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی بلاشبہ وہ فیض احمد فیض ہیں۔ فیض کو ترقی پسند ادب، انقلاب آفریں نغمات اور انسان دوستی کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔
فیض نے جب شاعری کی ابتدا کی تو علّامہ اقبال کے علاوہ کئی بڑے اور اہم شعراء اپنی رومانوی اور انقلابی شاعری کے لیے مشہور تھے۔ اس وقت برصغیر میں آزادی کی جدوجہد اور سیاسی بیداری کی لہر تیز ہوچکی تھی۔ فیض نے اس ماحول میں اور پھر ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر اپنی شاعری میں جبر، استحصال اور ہر قسم کے ظلم کے خلاف آواز بلند کی اور انسانی سوچ پر پہرے اور پابندیوں کو مسترد کیا۔ لیکن انھوں نے انقلاب اور حرّیت کے چراغ رومان کی منڈیروں پر اس طرح سجائے کہ وہ آفاقی محبّت میں ڈھلے اور ہر فرد کی ترجمانی کی۔ کل کی طرح فیض کے انقلابی ترانے اور نظمیں آج بھی ان کی عظمت اور ہر خاص و عام میں ان کی مقبولیت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ فیض صاحب کی شاعری کے اسی وصف نے ان کی شخصیت کو پاکستانی ادب ہی نہیں پاکستانی تہذیب اور ثقافت میں بھی امتیازی حیثیت دی اور وہ شاعر، نثر نگار، صحافی اور فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے یاد کیے گئے۔ ان کا ایک حوالہ تدریس بھی ہے۔ فیض صاحب کی شخصیت اور شاعری پر بہت سے مشاہیر اور اہلِ قلم نے مضامین تحریر کیے اور کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ ہم یہاں ان کتابوں سے چند دل چسپ واقعات بھی نقل کریں گے مگر اس سے پہلے فیض صاحب کا مختصر سوانحی خاکہ پڑھ لیجیے۔
فیض صاحب کی مصدقہ تاریخِ پیدائش 13 فروری 1911ء ہے۔ مصدقہ ان معنوں میں کہ ان کی تعلیمی اسناد میں کہیں کہیں 7 جنوری بھی تحریر ہے۔ اس موضوع پر 1963ء میں لندن میں پروفیسر رالف رسل اور ڈاکٹر عبادت بریلوی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا:’’ولادت تو میری سیالکوٹ کی ہے، تاریخ ولادت مجھے خود نہیں معلوم۔ ایک ہم نے فرضی بنا رکھی ہے۔ ‘‘
پھر جب ان سے سوال کیا گیا کہ اچھا وہی بتا دیجیے تو جواب دیا: ’’7 جنوری 1911ء ہے لیکن یہ محض اسکول کے سرٹیفکیٹ سے نقل کی گئی ہے اور میں نے سنا ہے کہ اس زمانے میں اسکول میں جو تاریخیں لکھی جاتی تھیں وہ سب جعلی ہوتی تھیں۔
فیض صاحب کی ابتدائی تعلیم کا آغاز بھی گھر ہی سے ہوا، جہاں انہوں نے اردو، فارسی اور قرآن کی تعلیم حاصل کی۔ 1915ء میں انہیں انجمن اسلامیہ کے مدرسے میں داخل کروا دیا گیا جہاں ان کے والد خود اس انجمن کے صدر تھے۔ یہ سلسلہ زیادہ عرصے تک جاری نہیں رہا کیوں کہ 1916ء میں انہیں اس کاچ مشن اسکول میں بھیج دیا گیا جہاں انہوں نے مولوی ابراہیم سیالکوٹی سے علوم مشرقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ فیض صاحب نے جب بھی اپنے بچپن کے زمانے کو یاد کیا تو اپنے اس شفیق استاد کو ضرور یاد کیا۔ اسی اسکول میں ان کے دوسرے استاد شمس العلماء مولوی میر حسن بھی تھے جن کے شاگردوں میں سر فہرست علامہ اقبال کا نام آتا ہے۔ فیض صاحب نے ان سے عربی صرف و نحو کے باقاعدہ درس لیے اور اپنے اس تعلق پر انہوں نے زندگی بھر ناز کیا۔
1927ء میں فیض صاحب نے اسکاچ مشن ہائی اسکول سیالکوٹ سے اوّل درجے میں میٹرک پاس کیا اور اس کے دو سال بعد انہوں نے 1929ء میں مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان۔ اس طرح سیالکوٹ میں ابتدائی تعلیم کا زمانہ اختتام پذیر ہوا اور پھر اس سلسلے کا دوسرا دور لاہور سے شروع ہوا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں جب داخلہ لیا تو کالج کی شان دار علمی فضا نے ان پر اپنے دروازے کھول دیے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے 1931ء میں انہوں نے ’’ بی اے کے ساتھ عربی میں بی اے آنرز کی ڈگری بھی حاصل کی۔ 1933ء میں انگریزی ادب میں ایم اے اور پھر1934ء میں عربی زبان و ادب میں بھی امتیاز کے ساتھ ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ ‘‘
فیض صاحب کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں گورنمنٹ کالج لاہور کا زمانہ بہت یادگار ہے۔ یہیں ان کی شاعری نے اہلِ علم و ادب کو اپنی طرف متوجہ کیا اور یہیں انہیں ایسے استاد میسر آئے جنہوں نے ان کی ادبی تربیت اور ناز برداری کے سامان مہیا کیے۔ ان شخصیتوں میں سرِفہرست پطرس بخاری اور صوفی غلام مصطفی تبسم کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔
عملی زندگی میں داخل ہونے کے بعد فیض صاحب نے نہ صرف شعر و ادب بلکہ درس و تدریس، صحافت، سیاست اور ثقافت کے شعبوں میں بھی بہت کچھ کام کیا اور نام کمایا۔ ایم اے او کالج امرتسر میں لیکچرر کی حیثیت سے ملازمت کی۔ اور بعد میں ہیلے کالج لاہور سے وابستہ ہوئے۔ 1942 میں وہ فوج میں کیپٹن ہوئے تھے اور محکمۂ تعلقات عامہ میں کام کیا اور ترقی پائی۔ بعد کے زمانے میں پاکستان آرٹس کونسل سے منسلک ہوئے اور پھر عبداللہ ہارون کالج کراچی میں پرنسپل کےعہدے پر فائز ہوئے۔ فیض نے راولپنڈی سازش کیس میں قید بھی کاٹی۔ بیرونِ ممالک سفر اور قیام کے علاوہ فیض صاحب کو کئی اعزازات سے بھی نوازا گیا جن میں ایک لینن پرائز بھی شامل ہے۔ بین الاقوامی سطح پر فیض کی ادبی خدمات کو ازحد سراہا گیا۔ 1962 میں اس وقت کے سوویت یونین نے انھیں لینن امن انعام دیا تھا اور 1976 میں ادب کا لوٹس انعام دیا گیا۔ 1990ء میں حکومت پاکستان نے ان کے لیے "نشانِ امتیاز” کا اعلان کیا اور 2011 کو "فیض کا سال” قرار دیا گیا۔
یہاں ہم مرزا ظفرالحسن کی زبانی فیض احمد فیض سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔
برصغیر کی تقسیم سے پہلے کا ذکر ہے۔ اردو کے مایہ ناز شاعر فیض احمد فیضؔ نے اپنے گھر میں ریڈیو تو رکھ لیا تھا مگر نہ اس کا لائسنس بنوایا تھا، نہ فیس ادا کی تھی۔ اس الزام کے تحت انھیں سول عدالت میں طلب کرلیا گیا۔ پیشی کے دن فیضؔ عدالت میں پہنچے۔
مجسٹریٹ فیضؔ کو اپنے کمرے میں لے گیا اور بڑی عاجزی سے بولا ‘‘فیض صاحب! میری بیوی کو آپ کی نظم مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ، بہت پسند ہے، وہ مجھے بار بار طعنے دیتی ہے کہ تم ہمیں شاعر سے اس کی ایک نظم بھی نہیں سنواسکتے، خدا رکھے آپ کے بلا لائسنس ریڈیو کو، اس کے طفیل مجھے آپ سے یہ عرض کرنے کا موقع مل گیا۔ ’’
اس کا کہنا تھا کہ ‘‘آپ نے ریڈیو کا لائسنس نہ بنواکر مقدمے کا نہیں بلکہ مجھے ملاقات کا اور میری گزارش سننے کا موقع فراہم کیا ہے، اگر آپ کل شام کی چائے میرے غریب خانے پر پییں اور اپنا کلام، بالخصوص پہلی سی محبت والی نظم میری بیوی کو سنائیں تو اس کی دیرینہ آرزو پوری ہوجائے گی۔’’
فیضؔ نے جواب میں کہا کہ ‘‘آپ سمن کے بغیر بھی بلاتے تو میں حاضر ہوجاتا اور نظم سناتا، میں کل شام ضرور آؤں گا۔’’ اس کے بعد فیض نے مجسٹریٹ سے پوچھا۔ ‘‘محض بے پروائی میں مجھ سے جو جرم سرزد ہوا ہے آپ نے اس کی کیا سزا تجویز کی ہے؟’’
راوی کے مطابق مجسٹریٹ کا جواب تھا کہ ‘‘فیضؔ صاحب! ماضی میں اگر آپ نے اس کے علاوہ بھی کچھ جرم کیے ہیں تو ان سب کی معافی کے لیے یہ ایک نظم ہی کافی ہے۔ ریڈیو کا لائسنس بنوالیجیے بس یہی آپ کی سزا ہے۔’’
احمد ندیم قاسمی کی زبانی یہ قصہ بھی سنیے۔
ایک دن فیض صاحب مجھے اپنی گاڑی میں عبدالرحمٰن چغتائی صاحب کے ہاں لے جارہے تھے۔ نسبت روڈ پر سے گزرے تو انھیں سڑک کے کنارے ”قاسمی پریس“ کا ایک بڑا سا بورڈ دکھائی دیا۔ مجھے معلوم نہیں یہ کن صاحب کا پریس تھا، مگر بہرحال، قاسمی پریس کا بورڈ موجود تھا۔
فیض صاحب کہنے لگے، ”آپ چپکے چپکے اتنا بڑا کاروبار چلا رہے ہیں؟“ اس پر ہم دونوں ہنسے، تھوڑا آگے گئے تو میو اسپتال کے قریب مجھے ایک بورڈ نظر آیا۔
میں نے کہا، ”فیض صاحب! کاروبار تو آپ نے بھی خوب پھیلا رکھا ہے، وہ بورڈ دیکھیے۔“ بورڈ پر فیض ہیئر کٹنگ سیلون کے الفاظ درج تھے۔
فیض صاحب اتنا ہنسے کہ انھیں کار سڑک کے ایک طرف روک لینا پڑی۔
ڈاکٹر آفتاب احمد کی یادداشتوں سے یہ انتخاب بھی فیض صاحب کی شخصیت کا ایک پہلو ہمارے سامنے لاتا ہے۔
ایک دفعہ فیض کراچی آئے۔ عطا صاحب نے ان کی اور راشد کی ایکسیلیئر ہوٹل میں دعوت کی جہاں ان دنوں ایک مصری بیلی ڈانسر پرنسس امینہ کا فلور شو ہو رہا تھا۔ ایک خاص بات اس میں یہ تھی کہ ڈھول بجانے والا اس ڈانسر کا شوہر تھا جو کسی انگریز لارڈ کا چھوٹا بیٹا تھا۔ اس دعوت میں فیض، راشد اور دونوں کے کالج کے ساتھی سیّد رشید احمد، غلام عبّاس اور راقم الحروف شامل تھے۔
ہم لوگ جب وقت مقررہ پر ہوٹل کی سب سے اوپر والی منزل پر واقع ہال میں پہنچے تو دیکھا کہ عطا صاحب کے تعلقات کی بنا پر ہوٹل والوں نے واقعی بڑا اہتمام کر رکھا ہے۔ مینجر نے خود ہمارا استقبال کیا اور ہمیں اسٹیج کے قریب والی ان دو میزوں میں سے ایک پر بٹھا دیا جن پر نہایت بڑھیا قسم کے مشروبات مع لوازمات بڑے سلیقے سے آراستہ تھے۔ فلور شو میں ابھی دیر تھی۔
آخر جب اس کا وقت قریب آنے لگا تو فیصلہ ہوا کہ اس سے پہلے کھانا کھا لیا جائے۔ ہم لوگ ابھی کھانا کھا ہی رہے تھے کہ فلور شو کی تیاری میں ہال کی رنگین بتّیاں جلنے بجھنے لگیں اور اس کے ساتھ ہی ہوٹل کے منیجر کچھ اور مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے انہیں ہماری میز کے ساتھ والی میز پر لے آئے۔
ان مہمانوں میں اس زمانے کے وفاقی وزیر ذوالفقار علی بھٹو صاحب بھی تھے۔ انہوں نے فیض صاحب کو دیکھتے ہی کسی قدر استعجاب اور بڑی بے تکلّفی کے لہجے میں پوچھا: ”Faiz, what are you doing here“ فیض صاحب نے سَر اٹھا کر ایک نظر ان پر ڈالی، پھر چھری کانٹا سنبھال کر اپنی پلیٹ پر جھک گئے اور بڑی بے پروائی سے جواب دیا: ”عیش۔“
یہ لفظ انہوں نے ہر ہر حرف کی آواز کو اُبھارتے ہوئے کچھ اس اندازسے ادا کیا کہ جیسے ان کا نطق ان کی زبان کے بوسے لے رہا ہو۔ ہم سب فیض صاحب کے اس جواب سے محظوظ ہوئے مگر راشد صاحب سب سے زیادہ۔
وہ بعد میں بھی بڑا لُطف لے لے کر اس کی داد دیتے رہے۔ یہاں تک کہ اسے سکندر اور دیو جانس کلبی کے اس مشہور مکالمے سے جا بھڑایا کہ جس میں سکندر کے اس سوال پر کہ اسے کیا چاہیے؟ بوریے پر بیٹھے ہوئے دیو جانس کلبی نے صرف اتنا کہا تھا کہ ”ذرا ایک طرف کو ہٹ جاؤ اور دھوپ مت روکو۔“
مشہور براڈ کاسٹر اور ادیب آغا ناصر لکھتے ہیں،’’1935میں فیض صاحب لاہور کو الوداع کہہ کر امرتسر چلے گئے۔ انھیں وہاں ایم اے او کالج میں لیکچر شپ مل گئی تھی۔ لاہور چھوڑنا فیض صاحب کے لیے کوئی ایسی خوشگوار بات نہیں تھی۔ لاہور میں اپنے کلاس فیلوز کے علاوہ انھیں اپنے اساتذہ سے بھی خاص نسبت رہی ۔‘‘’’ادبی حلقوں میں جو لوگ اس وقت لاہور میں موجود تھے اور جن سے فیض صاحب نے کسبِ فیض کیا۔ ان میں مولانا چراغ حسن حسرؔت، عبدالمجید سالکؔ، عبدالرحمٰن چغتائی، غلام رسول مہر، امتیاز علی تاج اور حفیظ جالندھری وغیرہ شامل تھے۔ پھر یہ کہ لاہور ہی وہ شہر تھا جہاں وہ اٹھارہ سال کی عمر میں عشق میں مبتلا ہوئے۔ اس پہلی محبت نے انھیں دیوانہ بنا دیا تھا۔‘‘
1941 میں فیض نے ایلس کیتھرین جارج سے شادی کی۔ شادی کی سادہ تقریب سرینگر میں منعقد ہوئی تھی۔ لینن انعام ملنے کے بعد فیض کو عالمی شہرت ملی۔ انھیں بیرونِ ملک لیکچرز کے لیے مدعو کیا جانے لگا اور ان کی شاعری کے تراجم مختلف زبانوں میں ہوئے۔
فیض صاحب کی تصانیف میں نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ، سر وادیٔ سینا، شام شہر یاراں اور میرے دل مرے مسافر کے علاوہ نثری کتابوں میں میزان، صلیبیں مرے دریچے میں اور متاع لوح و قلم شامل ہیں۔
20 نومبر 1984ء کو فیض صاحب کا انتقال ہوگیا۔