ایک زمانہ تھا جب مشاعرے ادب کی ترویج کے ساتھ تہذیب اور عوامی مذاق کا پتا دیتے تھے۔
مشاعروں میں اس وقت بھی ہلڑ بازی یا ہوٹنگ کی جاتی تھی، لیکن دہائیوں پہلے قابل اور باذوق سامعین مشاعرہ گاہ میں کسی شاعر یا شعر پر بوجوہ ناپسندیدگی کا اظہار بھی بہت ہی شائستگی اور تمیز سے کیا کرتے تھے، البتہ کئی مشاعرے ایسے بھی ہیں کہ ہوٹنگ کے بعد شاعر کو اسٹیج چھوڑ کر جانا پڑا۔ یہاں ہم ایک ادبی تذکرے سے یہ پارہ نقل کر رہے ہیں جس میں فیض صاحب بھی منچلوں کی وجہ سے مشکل میں پڑ گئے تھے۔
1960ء کے عشرے کے اوائل میں حیدرآباد میں دو یادگار مشاعرے ہوئے۔ یہاں فیض احمد فیض نے اپنے مشہور قطعہ سنایا:
ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا پوچھتے ہو
جو عمر سے ہم نے بھر پایا سب سامنے لائے دیتے ہیں
دامن میں ہے مشتِ خاکِ جگر، ساغر میں ہے خون حسرت مے
لو ہم نے دامن جھاڑ دیا، لو جام الٹائے دیتے ہیں
اس مشاعرے کی صدارت وزیر خزانہ شعیب صاحب کررہے تھے۔ وہ منچ پر آئے اور فیض صاحب کو گلے لگایا اور کہا ”فیض صاحب ہم ایسے محتسب نہیں ہیں“ اور مشاعرہ گلزار ہوگیا۔
پھر فیض صاحب نے ایک غزل شروع کی، انہیں پتا نہیں تھا کہ ’ہوٹرز ایسوسی ایشن‘ کے چھ عدد اراکین بھی موجود ہیں۔ غزل کا دوسرا یا شاید تیسرا شعر تھا جس کا ابھی پہلا مصرع ہی پڑھا تھا ”پیو کہ مفت لگا دی ہے خون دل کی کشید“ کہ ’ہوٹرز‘ کرسیوں پر کھڑے ہوئے اور کورَس میں ”ٹھنڈا ٹھار چھے چھے پیسے، ٹھنڈا ٹھار چھے چھے پیسے!“ کی آواز لگانا شروع ہو گئے اور سارے حاضرین ہنسی اور تالیوں کے دیوانے ہوگئے۔ دوسرے مصرعے کی نوبت ہی نہیں آنے دی، خیر، فیض صاحب کے چہرے پر جو ایک ابدی مسکراہٹ رہتی تھی وہ فتح یاب ہوئی اور فیض صاحب نے غزل پوری کی، مگر وہ فتح عارضی تھی کہ ایک شعر میں لفظ ”چاندنی“ آیا اور ’ہوٹرز‘ پھر شروع ہو گئے، ”چاندنی باجی حرام ہے چاندنی باجی حرام ہے“ اور فیض صاحب مسکراتے رہے اور حاضرین ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوگئے۔
یہ شعر کچھ یوں تھا ؎
فقیہِ شہر سے مے کا جواز کیا پوچھیں
کہ چاندنی کو بھی حضرت حرام کہتے ہیں