منگل, نومبر 19, 2024
اشتہار

جب فیض احمد فیض کو اپنے بھائی سے شکوہ کرنا پڑا

اشتہار

حیرت انگیز

موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ کڑوی اور دل خراش، لیکن انسان مشیّتِ ایزدی کے آگے بے بس ہے۔ ہر ادنیٰ و اعلیٰ، خاص و عام، امیر غریب سبھی کو اس جہانِ رنگ و بُو سے ایک روز جانا پڑے گا۔

اسی موضوع پر یہ شعر آپ نے بھی سنا ہو گا

موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ، کل ہماری باری ہے

- Advertisement -

ہر عام آدمی کی طرح فن کار اور اہلِ قلم بھی اپنوں کی دائمی جدائی کا صدمہ اٹھاتے ہیں اور رفتگاں کو شدّت سے یاد کرتے ہیں اور یہ شدّت، یہ کرب اُن کی قوّتِ متخیلہ سے اُن کے فن میں ڈھل کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ اردو شاعری میں اس کی مثال مراثی اور حزنیہ کلام ہے۔

یہاں‌ ہم اردو زبان کے عالمی شہرت یافتہ، ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض کی ایک ایسی ہی نظم پیش کررہے ہیں‌ جو انھوں‌ نے اپنے بھائی کی رحلت کے بعد ان کی یاد میں‌ لکھی تھی۔ اس نظم کا عنوان "نوحہ” ہے جس میں فیض نے بھائی کے لیے اپنی محبّت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی دائمی جدائی کے کرب کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔

نوحہ
مجھ کو شکوہ ہے مرے بھائی کہ تم جاتے ہوئے
لے گئے ساتھ مری عمرِ گزشتہ کی کتاب

اس میں تو میری بہت قیمتی تصویریں تھیں
اس میں بچپن تھا مرا اور مرا عہدِ شباب

اس کے بدلے مجھے تم دے گئے جاتے جاتے
اپنے غم کا یہ دمکتا ہوا خوں رنگ گلاب

کیا کروں بھائی یہ اعزاز میں کیوں کر پہنوں
مجھ سے لے لو مری سب چاک قمیصوں کا حساب

آخری بار ہے لو مان لو اک یہ بھی سوال
آج تک تم سے میں لوٹا نہیں مایوسِ جواب

آ کے لے جاؤ تم اپنا یہ دمکتا ہوا پھول
مجھ کو لوٹا دو مری عمرِ گزشتہ کی کتاب

Comments

اہم ترین

مزید خبریں