تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

ذہین طبقے کا سب سے محبوب شاعر

سنہ 1947ء میں تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آنے والے ادیبوں اور شعرا میں ساحر لدھیانوی بھی شامل تھے۔ وہ اپنے زمانے کے مقبول شاعر تھے، ان کی مقبولیت ایسی تھی جو اُن کے بعض ہم عصروں کے لیے باعثِ رشک تھی تو اکثر اہلِ قلم میں اُن کے لیے رقابت کا جذبہ بھی پیدا کیا۔

’سویرا‘ ترقی پسند مصنّفین کا رسالہ تھا جس کے چند شمارے ساحر لدھیانوی کے زیرِ ادارت شایع ہوئے۔ اس دور میں‌ ایسے انقلابیوں اور کمیونسٹوں پر حکومت کڑی نظر رکھے ہوئے تھی۔ ساحر اپنی شاعری اور اس رسالہ میں اپنے مضامین کے ذریعے انقلابی فکر کا پرچار کرتے رہتے تھے۔ ایک روز وہ پاکستان چھوڑ کر بھارت چلے گئے۔ یہاں لاہور کے قیام کے دوران ساحر لدھیانوی نے سویرا کے صرف چند شماروں کی ادارت کی تھی۔ سویرا کا چوتھا شمارہ ان کے زیرِ‌ ادارت آخری شمارہ تھا۔ اسی سویرا کے تیسرے پرچے میں ساحر نے مدیر کی حیثیت سے فیض احمد فیض کے بارے میں چند خوب صورت سطریں‌ سپردِ قلم کی تھیں۔ انھوں نے فیض کو اس وقت ذہین طبقے کا سب سے محبوب شاعر لکھا۔ ساحر کی تحریر ملاحظہ کیجیے۔

"فیض احمد فیض: ذہین طبقے کا سب سے محبوب شاعر ہے۔ بہت کم لکھتا ہے، لیکن جب لکھتا ہے تو پڑھنے والوں کے ساتھ لکھنے والوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اردو کے نوجوان شاعروں میں شاید ہی کوئی ایسا شاعر ہو گا جس نے اس کے انداز بیان اور اسلوبِ فکر سے اثر نہ لیا ہو۔

فیض وہ پہلا فن کار ہے جس نے جدید شاعری اور انفرادی دکھوں کو سماجی پس منظر میں جانچنا سکھایا اور رومان اور سیاست کا سنگم تلاش کیا۔ دو ایک برس سے تکلیف دہ حد تک خاموش رہنے لگا ہے، جیسے اب کچھ کہنے کی ضرورت نہ ہو، یا ضرورت ہو لیکن فرصت نہ ملتی ہو۔ پھر بھی کبھی کبھی کوئی حادثہ کسی نہ کسی گوشے سے ابھر کر اس کے جذبات کے تاروں کو جھنجھنا دیتا ہے اور وہ کچھ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اپنی مخصوص مدھم اور ملائم لے میں ‘سحر’ ایک ایسے ہی حادثے کی پیدوار ہے۔

بچپن سیالکوٹ میں گزرا۔ ایم اے کا امتحان گورنمنٹ کالج لاہور سے پاس کیا، پھر ایم اے او کالج امرتسر اور ہیلی کالج لاہور میں بطور پروفیسر کام کرتا رہا۔ جنگ کے دوران میں لیفٹننٹ، میجر اور کرنل کے عہدے بھی سنبھالے، آج کل پاکستان ٹائمز لاہور کا ایڈیٹر ہے، اور آنکھوں کی گہری افسردگی اور لبوں کی موہ لینے والی مسکراہٹ کے ساتھ زندگی کا ساتھ نبھا رہا ہے۔”

Comments

- Advertisement -